خالی ہاتھ
جب اس کے ساتھ تھی میں اس وسیع کائنات میں نفس نفس قدم قدم نظر نظر امیر تھی اور اب غبار روز و شب کے جام میں اسیر ہوں
اہم پاکستانی شاعرہ، اپنی نرم وشگفتہ شعری آواز کے لیے معروف
One of the prominent women poets famous for the soft and lyrical tone of her poetry.
جب اس کے ساتھ تھی میں اس وسیع کائنات میں نفس نفس قدم قدم نظر نظر امیر تھی اور اب غبار روز و شب کے جام میں اسیر ہوں
اسے تو ہوش ہی نہ تھا کھلی ہتھیلیوں پہ جو نصاب ہجر لکھ گیا کہ وقت کیسے تھم گیا
تم جو قاتل نہ مسیحا ٹھہرے نہ علاج شب ہجراں نہ غم چارہ گراں نہ کوئی دشنۂ پنہاں نہ کہیں خنجر سم آلودہ نہ قریب رگ جاں تم تو اس عہد کے انساں ہو جسے وادی مرگ میں جینے کا ہنر آتا تھا مدتوں پہلے بھی جب رخت سفر باندھا تھا ہاتھ جب دست دعا تھے اپنے پانو زنجیر کے حلقوں سے کٹے جاتے تھے لفظ ...
بے نوا ہیں کہ تجھے صوت و نوا بھی دی ہے جس نے دل توڑ دئے اس کو دعا بھی دی ہے وہ جو طوفاں کو سفینہ کبھی ساحل سمجھے یورش قطرۂ شبنم سے خفا کیا ہوں گے ایک بار اور حساب دل و دلدار کرو نقد جاں نذر ہوئی جنس یقیں لے کے چلو ھجلہ ناز سے آتے ہیں بلاوے اب کے آخری بار چلو آخری دیدار کرو
بے کواڑ دروازے راہ دیکھتے ہوں گے طاق بے چراغوں کے اک کرن اجالے کی بھیک مانگتے ہوں گے کیوں جھجک گئے راہی کیوں ٹھٹک گئے راہی ڈھونڈنے کسے جاؤ انتظار کس کا ہو راستے میں کچھ ساتھی رہ بدل بھی جاتے ہیں پھر کبھی نہ ملنے کو کچھ بچھڑ بھی جاتے ہیں قافلہ کبھی ٹھہرا قافلہ کہاں ٹھہرا راہ کیوں ...
سال ہا سال محبت جو بنا کرتی ہے رشتۂ قلب و نظر پلۂ ریشم کی طرح ایک جھونکا بھی حوادث کا اسے کافی ہے پہلوئے گل میں دھڑکتی ہوئی شبنم کی طرح یہ محبت کے بنائے ہوئے ایوان بلند ایک ٹھوکر بھی زمانے کی نہیں سہہ سکتے آبگینے یہ بہت نازک و نارستہ ہیں موج کی گود میں تا دیر نہیں رہ سکتے گرم ...
اجنبی سبزہ زاروں میں حد نظر تک بنفشہ کے پھول اجنبی تو نہیں تھے نہ ہیں وہ تو راہ سفر کے اجالے بھی تھے ہم سفر بھی لگے داستانیں سناتے بھی تھے اور سنتے بھی تھے اب کے موسم تمہیں یاد کرتے رہے اور میں چپ رہی
جیسے دریا کنارے کوئی تشنہ لب آج میرے خدا میں یہ تیرے سوا اور کس سے کہوں میرے خوابوں کے خورشید و مہتاب سب میرے آنکھوں میں اب بھی سجے رہ گئے میرے حصے میں کچھ حرف ایسے بھی تھے جو فقط لوح جاں پر لکھے رہ گئے
نہیں یہ بستیاں ویراں نہیں اب بھی یہاں کچھ لوگ رہتے ہیں یہ وہ ہیں جو کبھی زخم وفا بازار تک آنے نہیں دیتے یہاں کچھ خواب ہیں جو سانس لیتے ہیں جوان خوابوں کو تم دیکھو تو ڈر جاؤ فلک آثار بام و در یہاں وقعت نہیں رکھتے کلاہ و زر یہاں قیمت نہیں رکھتے یہ کتنے لوگ ہیں بے نام ہیں بے لاگ ہیں بے ...
میں نے گل ریز بہاروں کی تمنا کی تھی مجھے افسردہ نگاہوں کے سوا کچھ نہ ملا چند سہمی ہوئی آہوں کے سوا کچھ نہ ملا جگمگاتے ہوئے تاروں کی تمنا کی تھی میں نے موہوم امیدوں کی پناہیں ڈھونڈیں شدت یاس میں مبہم سا اشارہ نہ ملا ڈگمگاتے ہوئے قدموں کو سہارا نہ ملا ہائے کس دشت بلا خیز میں راہیں ...