غزل : ہونٹوں پہ کبھی ان کے مِرا نام ہی آئے
کیا راہ بدلنے کا گِلہ، ہم سفروں سے؟؟؟ ؛ جس رَہ سے چلے، تیرے در و بام ہی آئے
اہم پاکستانی شاعرہ، اپنی نرم وشگفتہ شعری آواز کے لیے معروف
One of the prominent women poets famous for the soft and lyrical tone of her poetry.
کیا راہ بدلنے کا گِلہ، ہم سفروں سے؟؟؟ ؛ جس رَہ سے چلے، تیرے در و بام ہی آئے
آنکھوں میں روپ صبح کی پہلی کرن سا ہے احوال جی کا زلف شکن در شکن سا ہے کچھ یادگار اپنی مگر چھوڑ کر گئیں جاتی رتوں کا حال دلوں کی لگن سا ہے آنکھیں برس گئیں تو نکھار اور آ گیا یادوں کا رنگ بھی تو گل و یاسمن سا ہے کس موڑ پر ہیں آج ہم اے رہ گزار ناز اب درد کا مزاج کسی ہم سخن سا ہے ہے اب ...
نگاہ اوٹ رہوں کاسۂ خبر میں رہوں میں بجھتے بجھتے بھی پیراہن شرر میں رہوں میں خود ہی روز تمنا میں آپ شام فراق عجب نہیں جو اکیلی بھرے نگر میں رہوں سلگ اٹھی تو اندھیروں کا رکھ لیا ہے بھرم جو روشنی ہوں تو کیوں چشم نوحہ گر میں رہوں تمام عمر سفر میں گزار دوں اپنی تمام عمر تمنائے رہ ...
وہی نا صبورئ آرزو وہی نقش پا وہی جادہ ہے کوئی سنگ رہ کو خبر کرو اسی آستاں کا ارادہ ہے وہی اشک خوں کے گلاب ہیں وہی خار خار ہے پیرہن نہ کرم کی آس بجھی ابھی نہ ستم کی دھوپ زیادہ ہے ابھی روشنی کی لکیر سی سر رہ گزار ہے جاں بہ لب کسی دل کی آس مٹی نہیں کہیں اک دریچہ کشادہ ہے تن زخم زخم کو ...
کوئی سنگ رہ بھی چمک اٹھا تو ستارۂ سحری کہا مری رات بھی ترے نام تھی اسے کس نے تیرہ شبی کہا مرے روز و شب بھی عجیب تھے نہ شمار تھا نہ حساب تھا کبھی عمر بھر کی خبر نہ تھی کبھی ایک پل کو صدی کہا مجھے جانتا بھی کوئی نہ تھا مرے بے نیاز ترے سوا نہ شکست دل نہ شکست جاں کہ تری خوشی کو خوشی ...
روز و شب کی کوئی صورت تو بنا کر رکھوں کسی لہجے کسی آہٹ کو سجا کر رکھوں کوئی آنسو سا اجالا کوئی مہتاب سی یاد یہ خزینے ہیں انہیں سب سے چھپا کر رکھوں شور اتنا ہے کہ کچھ کہہ نہ سکوں گی اس سے اب یہ سوچا ہے نگاہوں کو دبا کر رکھوں آندھیاں ہار گئیں جب تو خیال آیا ہے پھول کو تند ہواؤں سے ...
جب اس کے ساتھ تھی میں اس وسیع کائنات میں نفس نفس قدم قدم نظر نظر امیر تھی اور اب غبار روز و شب کے جام میں اسیر ہوں
اسے تو ہوش ہی نہ تھا کھلی ہتھیلیوں پہ جو نصاب ہجر لکھ گیا کہ وقت کیسے تھم گیا
تم جو قاتل نہ مسیحا ٹھہرے نہ علاج شب ہجراں نہ غم چارہ گراں نہ کوئی دشنۂ پنہاں نہ کہیں خنجر سم آلودہ نہ قریب رگ جاں تم تو اس عہد کے انساں ہو جسے وادی مرگ میں جینے کا ہنر آتا تھا مدتوں پہلے بھی جب رخت سفر باندھا تھا ہاتھ جب دست دعا تھے اپنے پانو زنجیر کے حلقوں سے کٹے جاتے تھے لفظ ...
بے نوا ہیں کہ تجھے صوت و نوا بھی دی ہے جس نے دل توڑ دئے اس کو دعا بھی دی ہے وہ جو طوفاں کو سفینہ کبھی ساحل سمجھے یورش قطرۂ شبنم سے خفا کیا ہوں گے ایک بار اور حساب دل و دلدار کرو نقد جاں نذر ہوئی جنس یقیں لے کے چلو ھجلہ ناز سے آتے ہیں بلاوے اب کے آخری بار چلو آخری دیدار کرو
بے کواڑ دروازے راہ دیکھتے ہوں گے طاق بے چراغوں کے اک کرن اجالے کی بھیک مانگتے ہوں گے کیوں جھجک گئے راہی کیوں ٹھٹک گئے راہی ڈھونڈنے کسے جاؤ انتظار کس کا ہو راستے میں کچھ ساتھی رہ بدل بھی جاتے ہیں پھر کبھی نہ ملنے کو کچھ بچھڑ بھی جاتے ہیں قافلہ کبھی ٹھہرا قافلہ کہاں ٹھہرا راہ کیوں ...