Abid Akhtar

عابد اختر

عابد اختر کی غزل

    کوچۂ تمنا سے کار گاہ آذر تک

    کوچۂ تمنا سے کار گاہ آذر تک سنگ سنگ ملتے ہیں وقت کے پیمبر تک کام کی خرابی سے نام ڈوب جاتے ہیں گالیوں کی زد میں ہیں قاتلوں کے خنجر تک انتظار کرتے ہیں لوگ کیوں مسیحا کا فاصلہ نظر کا ہے زخم دل سے نشتر تک تشنگی کا روما ہے اب انہیں کے ہونٹوں پر جو سلگتی راتوں میں پی گئے سمندر تک جو ...

    مزید پڑھیے

    گر حد دید سے گزر جائیں

    گر حد دید سے گزر جائیں آئینے آنکھ میں اتر جائیں تیز رفتار خواہش پرواز ساتھ کس طرح بال و پر جائیں جو یہاں بام و در کی خاطر تھے ان کے ہم راہ بام و در جائیں سرحد درد آ گئی ٹھہرو آگے اب صاحب نظر جائیں سرفروشوں کی بزم سے اخترؔ طالب عمر مختصر جائیں

    مزید پڑھیے

    جب سے مرقوم ہو گیا ہوں میں

    جب سے مرقوم ہو گیا ہوں میں نقش مفہوم ہو گیا ہوں میں ذلتوں نے پناہ مانگی ہے اتنا مذموم ہو گیا ہوں میں پوچھو مصلوب کرنے والوں سے اب تو معصوم ہو گیا ہوں میں جو ازل سے نہ تھا مقدر میں اس سے محروم ہو گیا ہوں میں کیسا موسم ہے اس علاقے کا جس سے مسموم ہو گیا ہوں میں اپنی قسمت سے مات ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2