شکوہ ہائے غم جہاں سے بچیں
شکوہ ہائے غم جہاں سے بچیں آ کہ ہم سعئ رائیگاں سے بچیں آ کہ سمجھیں زمیں کی خوش سببی بے سبب خوف آسماں سے بچیں چھین لے جو یقین کی توفیق لازماً ایسے ہر گماں سے بچیں سال بھر دل لگائیں پڑھنے میں رات دن فکر امتحاں سے بچیں جو بلا تبصرہ پڑھی جائے عشق کی ایسی داستاں سے بچیں