جان اپنی چلی جائے ہے جائے سے کسو کے (ردیف .. ی)
جان اپنی چلی جائے ہے جائے سے کسو کے اور جان میں جان آئے ہے آئے سے کسو کے وہ آگ لگی پان چبائے سے کسو کے اب تک نہیں بجھتی ہے بجھائے سے کسو کے بجھنے دے ذرا آتش دل اور نہ بھڑکا مہندی نہ لگا یار لگائے سے کسو کے کیا سوئے پھر غل ہے در یار پہ شاید چونکا ہے وہ زنجیر ہلائے سے کسو کی کہہ دو ...