Abdul Rahman Ehsan Dehlvi

عبدالرحمان احسان دہلوی

مغل بادشاہ شاہ عالم ثانی کے استاد، میر تقی میر کے متاخرین شعرا کے ہم عصر

عبدالرحمان احسان دہلوی کی غزل

    جان اپنی چلی جائے ہے جائے سے کسو کے (ردیف .. ی)

    جان اپنی چلی جائے ہے جائے سے کسو کے اور جان میں جان آئے ہے آئے سے کسو کے وہ آگ لگی پان چبائے سے کسو کے اب تک نہیں بجھتی ہے بجھائے سے کسو کے بجھنے دے ذرا آتش دل اور نہ بھڑکا مہندی نہ لگا یار لگائے سے کسو کے کیا سوئے پھر غل ہے در یار پہ شاید چونکا ہے وہ زنجیر ہلائے سے کسو کی کہہ دو ...

    مزید پڑھیے

    یوں ہی کفر ہر صبح ہر شام ہوگا

    یوں ہی کفر ہر صبح ہر شام ہوگا الٰہی کبھو یاں بھی اسلام ہوگا کہیں کام میں وہ تو خود کام ہوگا یہاں کام آخر ہے واں کام ہوگا یہی دل اگر ہے یہی بے قراری تہ خاک بھی خاک آرام ہوگا صنم تین پانچ آپ کا چار دن ہے سدا ایک اللہ کا نام ہوگا یہ مژگاں وہ ہیں جن کی کاوش سے اک دن مشبک جگر مثل ...

    مزید پڑھیے

    محفل عشق میں جو یار اٹھے اور بیٹھے

    محفل عشق میں جو یار اٹھے اور بیٹھے ہے وہ ملکہ کہ سبکبار اٹھے اور بیٹھے رقص میں جب کہ وہ طرار اٹھے اور بیٹھے بے قراری سے یہ بیمار اٹھے اور بیٹھے کثرت خلق وہ محفل میں ہے تیری اک شخص نہیں ممکن ہے کہ یکبار اٹھے اور بیٹھے سر اٹھانے کی بھی فرصت نہیں دیتا ہے ہمیں چو حباب سر جو یار اٹھے ...

    مزید پڑھیے

    میاں کیا ہو گر ابروئے خم دار کو دیکھا

    میاں کیا ہو گر ابروئے خم دار کو دیکھا کیوں میری طرف دیکھ کے تلوار کو دیکھا آنکھیں مری پھوٹیں تری آنکھوں کے بغیر آہ گر میں نے کبھی نرگس بیمار کو دیکھا دیکھے نہ مرے اشک مسلسل کبھی تم نے اپنی ہی سدا موتیوں کے ہار کو دیکھا اتوار کو آنا ترا معلوم کہ اک عمر بے پیر ترے ہم نے ہی اطوار ...

    مزید پڑھیے

    تو بے نقاب ہے اے مہ یہ ہیں شراب کے دن

    تو بے نقاب ہے اے مہ یہ ہیں شراب کے دن کہ ماہتاب کی راتیں ہیں آفتاب کے دن جوان تو بھی ہے اپنے بھی ہیں شباب کے دن بلا حساب دے بوسے نہیں حساب کے دن ہوا سفید تری انتظار میں آخر عجب طرح سے پھرے دیدۂ پر آب کے دن ترے لبوں سے ہے روکش عجب طرح کے ہیں مست لگے ہیں دن اسے کیوں کر پھریں شراب کے ...

    مزید پڑھیے

    میں یاں بیٹھا تو تم واں اٹھ گئے اے یار کیا باعث

    میں یاں بیٹھا تو تم واں اٹھ گئے اے یار کیا باعث ہوئے بے دل ہی اپنے آپ کیوں بیزار کیا باعث عنایت کی نہیں اگلی سے اب آثار کیا باعث کئے ہیں بند تم نے رخنۂ دیوار کیا باعث کہا میں نے مرے گھر بھی کبھو آؤ گے یہ بولے میں کیوں آؤں مجھے کیا واسطہ کیا کار کیا باعث نڈر لا تقنطو پڑھ کر گناہوں ...

    مزید پڑھیے

    یک دست برپا ہم نے دونو جہاں میں دیکھا

    یک دست برپا ہم نے دونو جہاں میں دیکھا منصور کو سراسر دار الاماں میں دیکھا آتش جگر میں گاہے گہہ شعلہ جاں میں دیکھا اللہ ہم نے کیا کیا عشق بتاں میں دیکھا کس شعلہ رو کی الفت جوں برق دل میں چمکی آتش کا یک زباں نہ کام و دہاں میں دیکھا ہم کو کفن اسی کا لازم ہے ماہرو یاں الفت کا پرتو ...

    مزید پڑھیے

    تمہاری چشم نے مجھ سا نہ پایا

    تمہاری چشم نے مجھ سا نہ پایا دیا سرمہ بھی اور چپکا نہ پایا خدا کو کیا کہوں پایا نہ پایا کہ وصل بے خودی اصلا نہ پایا بہت صورت کو میں ترسا نہ پایا نہ پایا وہ بہت ترسا نہ پایا سحاب تر نے بحر خشک سب نے ہمارا دیدۂ تر سا نہ پایا چلے ہم دل جلے اس بزم سے یار جلے ہاتھوں سے اک بیڑا نہ ...

    مزید پڑھیے

    ستم سا کوئی ستم ہے ترا پناہ تری

    ستم سا کوئی ستم ہے ترا پناہ تری پڑی ہے چار طرف اک تراہ تراہ تری طریق پر جو نہیں تو ہے رہ نہ میرے ساتھ وہ راہ میری ہے اے جان سن یہ راہ تری دلا تو عشق میں ہر لحظہ اشک خونیں رو کہ سرخ روئی اسی سے ہے رو سیاہ تری میں اتنا بازیٔ الفت میں کیوں نہ ہوں ششدر جو مانگو پانچ دو پڑتے ہیں خواہ ...

    مزید پڑھیے

    دوش بدوش دوش تھا مجھ سے بت کرشمہ کوش

    دوش بدوش دوش تھا مجھ سے بت کرشمہ کوش پردہ در خیام عقل رخنہ گر حریم ہوش غازہ بہ رو مسی بہ لب پان بہ دہن حنا بکف سلک در عدن بسر طرہ عنبریں بہ دوش پل میں مریض وہ کرے دم میں شفا یہ دے مجھے آہ وہ چشم مے پرست واہ وہ لعل بادہ نوش مائل عیش جان کر جاہل بے وفا کہے سائل بوسہ جبکہ ہوں چپکے کہے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 5