عبد الحمید کے تمام مواد

12 غزل (Ghazal)

    پاؤں رکتے ہی نہیں ذہن ٹھہرتا ہی نہیں

    پاؤں رکتے ہی نہیں ذہن ٹھہرتا ہی نہیں کوئی نشہ ہے تھکن کا کہ اترتا ہی نہیں دن گزرتے ہیں گزرتے ہی چلے جاتے ہیں ایک لمحہ جو کسی طرح گزرتا ہی نہیں بھاری دروازۂ آہن کہ نہیں کھل پاتا میرے سینے میں یہ سناٹا اترتا ہی نہیں دست جاں سے میں اٹھا لوں اسے پی لوں لیکن دل وہ زہراب پیالہ ہے کہ ...

    مزید پڑھیے

    ایک مشعل تھی بجھا دی اس نے

    ایک مشعل تھی بجھا دی اس نے پھر اندھیروں کو ہوا دی اس نے کس قدر فرط عقیدت سے جھکا اور پھر خاک اڑا دی اس نے دم بہ دم مجھ پہ چلا کر تلوار ایک پتھر کو جلا دی اس نے یاں تو آتا ہی نہیں تھا کوئی آن کر بزم سجا دی اس نے

    مزید پڑھیے

    کچھ اپنا پتہ دے کر حیران بہت رکھا

    کچھ اپنا پتہ دے کر حیران بہت رکھا سرگرمی وحشت کا امکان بہت رکھا ایسا تو نہ تھا مشکل اک ایک قدم اٹھنا اس بار عجب میں نے سامان بہت رکھا پربت کے کنارے سے اک راہ نکلتی ہے دکھلایا بہت مشکل آسان بہت رکھا کیا فرض تھا ہر اک کو خوشبو کا پتہ دینا بس باغ محبت کو ویران بہت رکھا لوگوں نے ...

    مزید پڑھیے

    کتنی محبوب تھی زندگی کچھ نہیں کچھ نہیں

    کتنی محبوب تھی زندگی کچھ نہیں کچھ نہیں کیا خبر تھی اس انجام کی کچھ نہیں کچھ نہیں آج جتنے برادر ملے چاک چادر ملے کیسی پھیلی ہے دیوانگی کچھ نہیں کچھ نہیں پیچ در پیچ چلتے گئے ہم نکلتے گئے جانے کیا تھی گلی در گلی کچھ نہیں کچھ نہیں موج در موج اک فاصلہ رفتہ رفتہ بڑھا کشتی آنکھوں سے ...

    مزید پڑھیے

    ایک خدا پر تکیہ کر کے بیٹھ گئے ہیں

    ایک خدا پر تکیہ کر کے بیٹھ گئے ہیں دیکھو ہم بھی کیا کیا کر کے بیٹھ گئے ہیں پوچھ رہے ہیں لوگ ارے وہ شخص کہاں ہے جانے کون تماشا کر کے بیٹھ گئے ہیں اترے تھے میدان میں سب کچھ ٹھیک کریں گے سب کچھ الٹا سیدھا کر کے بیٹھ گئے ہیں سارے شجر شادابی سمیٹے اپنی اپنی دھوپ میں گہرا سایہ کر کے ...

    مزید پڑھیے

تمام