عبد الحمید کی غزل

    کبھی دیکھو تو موجوں کا تڑپنا کیسا لگتا ہے

    کبھی دیکھو تو موجوں کا تڑپنا کیسا لگتا ہے یہ دریا اتنا پانی پی کے پیاسا کیسا لگتا ہے ہم اس سے تھوڑی دوری پر ہمیشہ رک سے جاتے ہیں نہ جانے اس سے ملنے کا ارادہ کیسا لگتا ہے میں دھیرے دھیرے ان کا دشمن جاں بنتا جاتا ہوں وہ آنکھیں کتنی قاتل ہیں وہ چہرہ کیسا لگتا ہے زوال جسم کو دیکھو ...

    مزید پڑھیے

    دل میں جو بات ہے بتاتے نہیں

    دل میں جو بات ہے بتاتے نہیں دور تک ہم کہیں بھی جاتے نہیں عکس کچھ دیر تک نہیں رکتے بوجھ یہ آئنے اٹھاتے نہیں یہ نصیحت بھی لوگ کرنے لگے اس طرح مفت دل گنواتے نہیں دور بستی پہ ہے دھواں کب سے کیا جلا ہے جسے بجھاتے نہیں چھوڑ دیتے ہیں اک شرر بے نام آگ لگ جاتی ہے لگاتے نہیں بھول جانا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2