عبد الحمید کی غزل

    پاؤں رکتے ہی نہیں ذہن ٹھہرتا ہی نہیں

    پاؤں رکتے ہی نہیں ذہن ٹھہرتا ہی نہیں کوئی نشہ ہے تھکن کا کہ اترتا ہی نہیں دن گزرتے ہیں گزرتے ہی چلے جاتے ہیں ایک لمحہ جو کسی طرح گزرتا ہی نہیں بھاری دروازۂ آہن کہ نہیں کھل پاتا میرے سینے میں یہ سناٹا اترتا ہی نہیں دست جاں سے میں اٹھا لوں اسے پی لوں لیکن دل وہ زہراب پیالہ ہے کہ ...

    مزید پڑھیے

    ایک مشعل تھی بجھا دی اس نے

    ایک مشعل تھی بجھا دی اس نے پھر اندھیروں کو ہوا دی اس نے کس قدر فرط عقیدت سے جھکا اور پھر خاک اڑا دی اس نے دم بہ دم مجھ پہ چلا کر تلوار ایک پتھر کو جلا دی اس نے یاں تو آتا ہی نہیں تھا کوئی آن کر بزم سجا دی اس نے

    مزید پڑھیے

    کچھ اپنا پتہ دے کر حیران بہت رکھا

    کچھ اپنا پتہ دے کر حیران بہت رکھا سرگرمی وحشت کا امکان بہت رکھا ایسا تو نہ تھا مشکل اک ایک قدم اٹھنا اس بار عجب میں نے سامان بہت رکھا پربت کے کنارے سے اک راہ نکلتی ہے دکھلایا بہت مشکل آسان بہت رکھا کیا فرض تھا ہر اک کو خوشبو کا پتہ دینا بس باغ محبت کو ویران بہت رکھا لوگوں نے ...

    مزید پڑھیے

    کتنی محبوب تھی زندگی کچھ نہیں کچھ نہیں

    کتنی محبوب تھی زندگی کچھ نہیں کچھ نہیں کیا خبر تھی اس انجام کی کچھ نہیں کچھ نہیں آج جتنے برادر ملے چاک چادر ملے کیسی پھیلی ہے دیوانگی کچھ نہیں کچھ نہیں پیچ در پیچ چلتے گئے ہم نکلتے گئے جانے کیا تھی گلی در گلی کچھ نہیں کچھ نہیں موج در موج اک فاصلہ رفتہ رفتہ بڑھا کشتی آنکھوں سے ...

    مزید پڑھیے

    ایک خدا پر تکیہ کر کے بیٹھ گئے ہیں

    ایک خدا پر تکیہ کر کے بیٹھ گئے ہیں دیکھو ہم بھی کیا کیا کر کے بیٹھ گئے ہیں پوچھ رہے ہیں لوگ ارے وہ شخص کہاں ہے جانے کون تماشا کر کے بیٹھ گئے ہیں اترے تھے میدان میں سب کچھ ٹھیک کریں گے سب کچھ الٹا سیدھا کر کے بیٹھ گئے ہیں سارے شجر شادابی سمیٹے اپنی اپنی دھوپ میں گہرا سایہ کر کے ...

    مزید پڑھیے

    اسے دیکھ کر اپنا محبوب پیارا بہت یاد آیا

    اسے دیکھ کر اپنا محبوب پیارا بہت یاد آیا وہ جگنو تھا اس سے ہمیں اک ستارہ بہت یاد آیا یہی شام کا وقت تھا گھر سے نکلے کہ یاد آ گیا تھا بہت دن ہوئے آج وہ سب دوبارہ بہت یاد آیا سحر جب ہوئی تو بہت خامشی تھی زمیں شبنمی تھی کبھی خاک دل میں تھا کوئی شرارہ بہت یاد آیا برستے تھے بادل دھواں ...

    مزید پڑھیے

    کسی دشت و در سے گزرنا بھی کیا

    کسی دشت و در سے گزرنا بھی کیا ہوئے خاک جب تو بکھرنا بھی کیا وہی اک سمندر وہی اک ہوا مری شام تیرا سنورنا بھی کیا لکیروں کے ہیں کھیل سب زاویے ادھر سے ادھر پاؤں دھرنا بھی کیا مجھے اوب سی سب سے ہونے لگی یہ جینا بھی کیا اور مرنا بھی کیا اگر ان سے بچ کر نکل جائیے تو پھر اس کی آنکھوں ...

    مزید پڑھیے

    کسی کا قہر کسی کی دعا ملے تو سہی

    کسی کا قہر کسی کی دعا ملے تو سہی سہی وہ دشمن جاں آشنا ملے تو سہی ابھی تو لال ہری بتیوں کو دیکھتے ہیں ملے کسی کی خبر سلسلہ ملے تو سہی یہ قید ہے تو رہائی بھی اب ضروری ہے کسی بھی سمت کوئی راستہ ملے تو سہی یہ شام سرد میں ہر سو الاؤ جلتے ہیں سیہ خموشی میں کوئی صدا ملے تو سہی قبائے جسم ...

    مزید پڑھیے

    عجیب شے ہے کہ صورت بدلتی جاتی ہے

    عجیب شے ہے کہ صورت بدلتی جاتی ہے یہ شام جیسے مقابر میں ڈھلتی جاتی ہے چہار سمت سے تیشہ زنی ہوا کی ہے یہ شاخ سبز کہ ہر آن پھلتی جاتی ہے پہنچ سکوں گا فصیل بلند تک کیسے کہ میرے ہاتھ سے رسی پھسلتی جاتی ہے کہیں سے آتی ہی جاتی ہے نیند آنکھوں میں کسی کے آنے کی ساعت نکلتی جاتی ہے نگہ کو ...

    مزید پڑھیے

    سائے پھیل گئے کھیتوں پر کیسا موسم ہونے لگا

    سائے پھیل گئے کھیتوں پر کیسا موسم ہونے لگا دل میں جو ٹھہراؤ تھا اک دم درہم برہم ہونے لگا پردیسی کا واپس آنا جھوٹی خبر ہی نکلی نا بوڑھی ماں کی آنکھ کا تارہ پھر سے مدھم ہونے لگا بچپن یاد کے رنگ محل میں کیسے کیسے پھول کھلے ڈھول بجے اور آنسو ٹپکے کہیں محرم ہونے لگا ڈھور ڈنگر اور ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2