پاؤں رکتے ہی نہیں ذہن ٹھہرتا ہی نہیں
پاؤں رکتے ہی نہیں ذہن ٹھہرتا ہی نہیں کوئی نشہ ہے تھکن کا کہ اترتا ہی نہیں دن گزرتے ہیں گزرتے ہی چلے جاتے ہیں ایک لمحہ جو کسی طرح گزرتا ہی نہیں بھاری دروازۂ آہن کہ نہیں کھل پاتا میرے سینے میں یہ سناٹا اترتا ہی نہیں دست جاں سے میں اٹھا لوں اسے پی لوں لیکن دل وہ زہراب پیالہ ہے کہ ...