Abdul Ahad Saaz

عبد الاحد ساز

ممبئی کے اہم جدید شاعر، سنجیدہ شاعری کے حلقوں میں مقبول

Prominent poet from Mumbai, well-known to connoisseurs of serious poetry.

عبد الاحد ساز کے تمام مواد

49 غزل (Ghazal)

    لمحۂ تخلیق بخشا اس نے مجھ کو بھیک میں

    لمحۂ تخلیق بخشا اس نے مجھ کو بھیک میں میں نے لوٹایا اسے اک نظم کی تکنیک میں بام و در کی روشنی پھر کیوں بلاتی ہے مجھے میں نکل آیا تھا گھر سے اک شب تاریک میں فیصلے محفوظ ہیں اور فاصلے ہیں برقرار گرد اڑتی ہے یقیں کی وادیٔ تشکیک میں سی کے پھیلا دوں بساط فن پہ میں دامان چاک ڈور تو ...

    مزید پڑھیے

    بجا کہ پابند کوچۂ ناز ہم ہوئے تھے

    بجا کہ پابند کوچۂ ناز ہم ہوئے تھے یہیں سے پر لے کے محو پرواز ہم ہوئے تھے سخن کا آغاز پہلے بوسے کی تازگی تھا ازل ربا ساعتوں کے ہم راز ہم ہوئے تھے یہاں جو اک گونج دائرے سی بنا رہی ہے اسی خموشی میں سنگ آواز ہم ہوئے تھے رواں دواں انکشاف در انکشاف تھے ہم جو مڑ کے دیکھا تو صیغۂ راز ہم ...

    مزید پڑھیے

    باطن سے صدف کے در نایاب کھلیں گے

    باطن سے صدف کے در نایاب کھلیں گے لیکن یہ مناظر بھی تہہ آب کھلیں گے دیوار نہیں پردۂ فن بند قبا ہے اک جنبش انگشت کہ مہتاب کھلیں گے کچھ نوک پلک اور تحیر کی سنور جائے ہر جنبش مژگاں میں نئے باب کھلیں گے آئینہ در آئینہ کھلے گا چمن عکس تعبیر کے در خواب پس خواب کھلیں گے ہو جائیں گے جب ...

    مزید پڑھیے

    طبع حساس مری خار ہوئی جاتی ہے

    طبع حساس مری خار ہوئی جاتی ہے بے حسی عشرت کردار ہوئی جاتی ہے یہ خموشی یہ گھلاوٹ یہ بچھڑتے ہوئے رنگ شام اک درد بھرا پیار ہوئی جاتی ہے اور باریک کئے جاتا ہوں میں موئے قلم تیز تر سوزن اظہار ہوئی جاتی ہے کچھ تو سچ بول کہ دل سے یہ گراں بوجھ ہٹے زندگی جھوٹ کا طومار ہوئی جاتی ہے جادۂ ...

    مزید پڑھیے

    کھلی جب آنکھ تو دیکھا کہ دنیا سر پہ رکھی ہے

    کھلی جب آنکھ تو دیکھا کہ دنیا سر پہ رکھی ہے خمار ہوش میں سمجھے تھے ہم ٹھوکر پہ رکھی ہے تعارف کے تلے پہچان غائب ہو گئی اپنی عجب جادو کی ٹوپی ہم نے اپنے سر پہ رکھی ہے مرے ہونے کا یہ تصدیق نامہ کس نے لکھا ہے گواہی کس کی میری ذات کے محضر پہ رکھی ہے اچانک گر وہ بے آمد ہی کمرے میں بر ...

    مزید پڑھیے

تمام

28 نظم (Nazm)

    فساد کے بعد

    فساد شہر تھم گیا فضا میں بس گئی ہے ایک زہر ناک خامشی ہراس خوف بے بسی میں کھا رہا ہوں پی رہا ہوں جی رہا ہوں کس طرح یہ نرم لقمۂ غذا گرم گھونٹ چائے کا کسی خیال کے تلے جلے ہوئے لہو کے ذائقے سا منہ میں جم گیا فشار کشت و خوں کے بعد مضطرب سکوت جیسے دھڑکنوں کے راستے میں تھم گیا شعور عمر و ...

    مزید پڑھیے

    انتظار باقی ہے

    کانپتی ہیں ہونٹوں پر کتنی ان کہی باتیں گونجتے ہیں کانوں میں کتنے ان سنے نغمے جھانکتے ہیں پلکوں سے انگلیوں کے پوروں تک خواب کتنے ان دیکھے لمس ان چھوئے کتنے نام ہے طلب جس کا مستقل حرارت ہے حسرت و تمنا کے آنسوؤں سے نم لیکن ان بجھے شراروں کی دائمی مسافت ہے بے بس آرزوؤں سے درد کی ...

    مزید پڑھیے

    الوداع

    لڑکپن کی رفیق اے ہم نوائے نغمۂ طفلی ہماری گیارہ سالہ زندگی کی دل نشیں وادی ہمارے ذہن کی تخئیل کی احساس کی ساتھی ہمارے ذوق کی رہبر ہماری عقل کی ہادی ہمارے دامن افکار پر تیرا ہی سایا ہے خوشا اسکول کہ ہم نے تجھی سے فیض پایا ہے ہماری دھڑکنیں تیرے ہی بام و در میں پنہاں ہیں ترے ماحول ...

    مزید پڑھیے

    بچت

    انہی دو سے آباد ہر اک کا گھر ہے کمانا ہے فن اور بچانا ہنر ہے یہ بات آج ہی سوچنا ہے ضروری کسے ہے خبر آنے والے دنوں کی برے وقت میں کام آئیں گے اکثر رکھو گے اگر چار پیسے بچا کر بچت ہی سے مل جل کے بنتی ہے دولت بچت ہی سے بڑھتی ہے ملکوں کی طاقت یہ فصلیں یہ بازار یہ کارخانے بچت نے سنوارے ہیں ...

    مزید پڑھیے

    سعدیمؔ

    زندگی سعدیہؔ کے ساتھ کھلے دم بہ دم یم بہ یم حیات کھلے محو ہو جائے سب گمان نفی اس کے چہرے پہ جب ثبات کھلے لمس سے اس کے ننھے ہاتھوں کے غنچۂ انکشاف ذات کھلے سیپ ہونٹوں میں موتیوں کی قطار جب کھلے گوہر صفات کھلے مسکرائے تو رو میں آئے حیات کھلکھلا دے تو کائنات کھلے اس کی شفاف نیند میٹھے ...

    مزید پڑھیے

تمام