Abdul Ahad Saaz

عبد الاحد ساز

ممبئی کے اہم جدید شاعر، سنجیدہ شاعری کے حلقوں میں مقبول

Prominent poet from Mumbai, well-known to connoisseurs of serious poetry.

عبد الاحد ساز کی غزل

    عبث ہے راز کو پانے کی جستجو کیا ہے (ردیف .. ')

    عبث ہے راز کو پانے کی جستجو کیا ہے یہ چاک دل ہے اسے حاجت رفو کیا ہے یہ آئنے ہیں کہ ہم چہرہ لشکروں کی صفیں یہ عکس عکس کوئی صورت عدو کیا ہے مشابہت کے یہ دھوکے مماثلت کے فریب مرا تضاد لیے مجھ سا ہو بہ ہو کیا ہے میں ایک حلقۂ بے سمت اپنے مرکز پر یہ شش جہات ہیں کیسے یہ چار سو کیا ہے یہ ...

    مزید پڑھیے

    سبق عمر کا یا زمانے کا ہے

    سبق عمر کا یا زمانے کا ہے سب آموختہ بھول جانے کا ہے یہ گم ہوتے چہرے یہ منظر یہ گرد سماں رات دن یاں سے جانے کا ہے رکے ہیں کہ ٹک دیکھ لیں سوچ لیں توقف تکلف بہانے کا ہے یہ صدیوں کا محکم منظم سکوت طلسم ایک چٹکی بجانے کا ہے مہک سانس سبزۂ قبر کی کنایہ سا جیسے بلانے کا ہے وضاحت نہ ...

    مزید پڑھیے

    کھلے ہیں پھول کی صورت ترے وصال کے دن

    کھلے ہیں پھول کی صورت ترے وصال کے دن ترے جمال کی راتیں ترے خیال کے دن نفس نفس نئی تہہ داریوں میں ذات کی کھوج عجب ہیں تیرے بدن تیرے خد و خال کے دن بہ ذوق شعر بہ جبر معاش یکجا ہیں مرے عروج کی راتیں مرے زوال کے دن خرید بیٹھے ہیں دھوکے میں جنس عمر دراز ہمیں دکھائے تھے مکتب نے کچھ ...

    مزید پڑھیے

    نہ مقامات نہ ترتیب زمانی اپنی

    نہ مقامات نہ ترتیب زمانی اپنی اتفاقات پہ مبنی ہے کہانی اپنی جسم سی جاتی ہے تہہ حرف کسی کرب کی موج تھم کے رہ جاتی ہے لفظوں کی روانی اپنی پھیل جاتی تھی سماعت کی زمینوں میں نمی تھی کبھی تر سخنی آب رسانی اپنی لاکھ تم مجھ کو دباؤ میں ابھر آؤں گا سطح ہموار کیے رہتا ہے پانی ...

    مزید پڑھیے

    جیسے کوئی دائرہ تکمیل پر ہے

    جیسے کوئی دائرہ تکمیل پر ہے ان دنوں مجھ پر گزشتہ کا اثر ہے زندگی کی بند سیپی کھل رہی ہے اور اس میں عہد طفلی کا گہر ہے دل ہے راز و رمز کی دنیا میں شاداں عقل کو ہر آن تشویش خبر ہے اک توقف زار میں گم ہے تسلسل لمحۂ موجود گویا عمر بھر ہے ذہن میں روزن انوکھے کھل رہے ہیں جن سے ان سوچی ...

    مزید پڑھیے

    گھل سی گئی روح میں اداسی

    گھل سی گئی روح میں اداسی راس آئی نہ ہم کو خود شناسی ہر موڑ پہ بے کشش کھڑی ہے اک خوش بدنی و کم لباسی لالچ میں پروں کے پیر چھوٹے اب رخت سفر ہے بے اساسی نفس مضموں اسی میں ہے گو مضمون نفس ہے اقتباسی آئی بھی تو کیا نگار تعبیر اوڑھے ہوئے خواب کی ردا سی جادو سا الم کا کر گئی سازؔ ان ...

    مزید پڑھیے

    یوں بھی دل احباب کے ہم نے گاہے گاہے رکھے تھے

    یوں بھی دل احباب کے ہم نے گاہے گاہے رکھے تھے اپنے زخم نظر پر خوش فہمی کے پھاہے رکھے تھے ہم نے تضاد دہر کو سمجھا دوراہے ترتیب دیئے اور برتنے نکلے تو دیکھا سہ راہے رکھے تھے رقص کدہ ہو بزم سخن ہو کوئی کار گہہ فن ہو زردوزوں نے اپنی ماتحتی میں جلاہے رکھے تھے محتسبوں کی خاطر بھی اپنے ...

    مزید پڑھیے

    ہر اک دھڑکن عجب آہٹ

    ہر اک دھڑکن عجب آہٹ پرندوں جیسی گھبراہٹ مرے لہجے میں شیرینی مری آنکھوں میں کڑواہٹ مری پہچان ہے شاید مرے حصے کی اکتاہٹ سمٹتا شعر ہیئت میں بدن کی سی یہ گدراہٹ مصر میں فن مرا ضد پر یہ بالک ہٹ وہ تریاہٹ اجالے ڈس نہ لیں اس کو بچا رکھو یہ دھندلاہٹ لہو کی سیڑھیوں پر ہے کوئی بڑھتی ...

    مزید پڑھیے

    سوال کا جواب تھا جواب کے سوال میں

    سوال کا جواب تھا جواب کے سوال میں گرفت شور سے چھٹے تو خامشی کے جال میں برا ہو آئینے ترا میں کون ہوں نہ کھل سکا مجھی کو پیش کر دیا گیا مری مثال میں بقا طلب تھی زندگی شفا طلب تھا زخم دل فنا مگر لکھی گئی ہے باب اندمال میں کہیں ثبات ہے نہیں یہ کائنات ہے نہیں مگر امید دید میں تصور ...

    مزید پڑھیے

    موت سے آگے سوچ کے آنا پھر جی لینا

    موت سے آگے سوچ کے آنا پھر جی لینا چھوٹی چھوٹی باتوں میں دلچسپی لینا نرم نظر سے چھونا منظر کی سختی کو تند ہوا سے چہرے کی شادابی لینا جذبوں کے دو گھونٹ عقیدوں کے دو لقمے آگے سوچ کا صحرا ہے کچھ کھا پی لینا مہنگے سستے دام ہزاروں نام یہ جیون سوچ سمجھ کر چیز کوئی اچھی سی لینا آوازوں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 4 سے 5