Abdul Ahad Saaz

عبد الاحد ساز

ممبئی کے اہم جدید شاعر، سنجیدہ شاعری کے حلقوں میں مقبول

Prominent poet from Mumbai, well-known to connoisseurs of serious poetry.

عبد الاحد ساز کی غزل

    دکھائی دینے کے اور دکھائی نہ دینے کے درمیان سا کچھ

    دکھائی دینے کے اور دکھائی نہ دینے کے درمیان سا کچھ خیال کی لامکانیوں میں ابھر رہا ہے مکان سا کچھ کوئی تعین کوئی تیقن نظر کو محدود رکھ سکے جو فلک سے نیچے بہت ہی نیچے بنا ہے اک سائبان سا کچھ نمو کا طوفاں تھا آفرینش کی زد پہ ہم تم کھڑے تھے دونوں تمہیں بھی کچھ یاد آئے شاید مجھے تو ...

    مزید پڑھیے

    بند فصیلیں شہر کی توڑیں ذات کی گرہیں کھولیں

    بند فصیلیں شہر کی توڑیں ذات کی گرہیں کھولیں برگد نیچے ندی کنارے بیٹھ کہانی بولیں دھیرے دھیرے خود کو نکالیں اس بندھن جکڑن سے سنگ کسی آوارہ منش کے ہولے ہولے ہو لیں فکر کی کس سرشار ڈگر پر شام ڈھلے جی چاہا جھیل میں ٹھہرے اپنے عکس کو چومیں ہونٹ بھگو لیں ہاتھ لگا بیٹھے تو جیون بھر ...

    مزید پڑھیے

    لفظوں کے صحرا میں کیا معنی کے سراب دکھانا بھی

    لفظوں کے صحرا میں کیا معنی کے سراب دکھانا بھی کوئی سخن سحابی کوئی نغمہ نخلستانہ بھی اک مدت سے ہوش و خبر کی خاموشی رائج ہے یہاں کاش دیار عصر میں گونجے کوئی صدا مستانہ بھی نپے تلے آہنگ پہ کب تک سنبھل سنبھل کر رقص کریں کوئی دھن دیوانی کوئی حرکت مجنونانا بھی شہر سے باہر کہساروں ...

    مزید پڑھیے

    اک ایما اک اشارہ مر رہا ہے

    اک ایما اک اشارہ مر رہا ہے افق پر دل کے تارا مر رہا ہے جو میرے بعد سب پیدا ہوا تھا وہ مجھ سے پہلے سارا مر رہا ہے جسے تھا پھول کر پھٹنا ہی لازم سکڑ کر وہ غبارہ مر رہا ہے کئی موجوں نے دم توڑا تھا جس پر سنا ہے وہ کنارا مر رہا ہے خرد تحلیل صحرا کر رہی ہے جنوں کا استعارہ مر رہا ہے نظر ...

    مزید پڑھیے

    بے مصرف بے حاصل دکھ

    بے مصرف بے حاصل دکھ جینے کے نا قابل دکھ خواب ستارے پلکوں پر جھلمل جھلمل جھلمل دکھ سکھ ہے اک گمنام افق ناؤ سمندر ساحل دکھ راہ کے سب دکھ جھیل کے جب منزل آئے تو منزل دکھ بوجھ سا میری راتوں پر شعر کی صورت نازل دکھ صحرا صدیاں جیون کی اور یہ پل پل تل تل دکھ مکتی بن کا برگد کرب بھوگ ...

    مزید پڑھیے

    جانے قلم کی آنکھ میں کس کا ظہور تھا

    جانے قلم کی آنکھ میں کس کا ظہور تھا کل رات میرے گیت کے مکھڑے پہ نور تھا نغمہ سا چھیڑتی تھیں تجلی کی انگلیاں توریت کا نزول بہ لحن زبور تھا وہ ساتھ ساتھ اور پہنچنا تھا اس تلک ہر آن ایک مرحلہ نزدیک و دور تھا ہیبت کے بام پر تھی بلاوے کی روشنی تھی وسوسوں کی شام پہ جانا ضرور تھا ہر ...

    مزید پڑھیے

    ہم اپنے زخم کریدتے ہیں وہ زخم پرائے دھوتے تھے

    ہم اپنے زخم کریدتے ہیں وہ زخم پرائے دھوتے تھے جو ہم سے زیادہ جانتے تھے وہ ہم سے زیادہ روتے تھے اچھوں کو جہاں سے اٹھے ہوئے اب کتنی دہائیاں بیت چکیں آخر میں ادھر جو گزرے ہیں شاید ان کے پر پوتے تھے ان پیڑوں اور پہاڑوں سے ان جھیلوں ان میدانوں سے کس موڑ پہ جانے چھوٹ گئے کیسے یارانے ...

    مزید پڑھیے

    آج پھر شب کا حوالہ تری جانب ٹھہرے

    آج پھر شب کا حوالہ تری جانب ٹھہرے چاند مضمون بنے شرح کواکب ٹھہرے داد و تحسین کی بولی نہیں تفہیم کا نقد شرط کچھ تو مرے بکنے کی مناسب ٹھہرے نیک گزرے مری شب صدق بدن سے تیرے غم نہیں رابطۂ صبح جو کاذب ٹھہرے مخلصی باعث تضحیک ذہانت دشمن یہ محاسن تو مرے حق میں معائب ٹھہرے میں ہوں خود ...

    مزید پڑھیے

    یوں تو سو طرح کی مشکل سخنی آئے ہمیں

    یوں تو سو طرح کی مشکل سخنی آئے ہمیں پر وہ اک بات جو کہنی نہ ابھی آئے ہمیں کیسے توڑیں اسے جو ٹوٹ کے ملتی ہو گلے لاکھ چاہا کہ روایت شکنی آئے ہمیں ہر قدم اس متبادل سے بھری دنیا میں راس آئے تو بس اک تیری کمی آئے ہمیں پیاس بجھ جائے زمیں سبز ہو منظر دھل جائے کام کیا کیا نہ ان آنکھوں کی ...

    مزید پڑھیے

    میں نے اپنی روح کو اپنے تن سے الگ کر رکھا ہے

    میں نے اپنی روح کو اپنے تن سے الگ کر رکھا ہے یوں نہیں جیسے جسم کو پیراہن سے الگ کر رکھا ہے میرے لفظوں سے گزرو مجھ سے درگزرو کہ میں نے فن کے پیرائے میں خود کو فن سے الگ کر رکھا ہے فاتحہ پڑھ کر یہیں سبک ہو لیں احباب چلو ورنہ میں نے اپنی میت کو مدفن سے الگ کر رکھا ہے گھر والے مجھے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 5