Aazam Khursheed

اعظم خورشید

اعظم خورشید کی نظم

    یک جان دو قالب

    دونوں ایک ہی ذات میں گم تھے باتیں کرتے ہنستے کھیلتے چلتے چلتے اک دوجے کو دیکھ بھی لیتے آب و ہوا اور مٹی ایک ایک اٹھان دونوں اپنے وقتوں کی آواز بنے تھے دھن دریچے چہرہ مہرہ ایک تھا ان کا ایک سی رنگت ایک ہی رنگ میں رنگے ہوئے تھے پھر بھی دونوں الگ الگ تھے

    مزید پڑھیے

    دعا

    گہری رات میں سائے سائے زرد گھٹا ساکت و جامد گہرا نیلا جنگل سرد ہوا میں ہاتھ بڑھا سرد ہوا سسکیاں خوشبو الھڑ جسم دوراہے سپنا خون بہا قہر و غضب کی گرم ہوا میرے خدا الھڑ جسم کا خون بہا خون بہا ہاتھوں کو مایوس نہ کر

    مزید پڑھیے

    روشنی

    سڑک کنارے بیٹھ کے اکثر میں یہ سوچا کرتا تھا گھٹتے بڑھتے ٹیڑھے ترچھے لاکھوں سائے کس کا پیچھا کرتے ہیں عمر کنارے اب میں اپنا سندر سایہ ڈھونڈ رہا ہوں

    مزید پڑھیے

    سنگسار ہونے والی لڑکی کی آخری الفاظ

    جس نے مجھ کو لفظوں کے ایک ڈھیر پہ لا کے کھڑا کیا تھا جس نے مجھ سے پیار کیا تھا جس نے کہا تھا تو اچھی ہے جس نے کہا تھا تو رانی ہے جس نے کہا تھا مر جاؤں گا جس نے کہا تھا جس نے جانے کیا کیا کہا تھا پہلا پتھر وہ تھا سہیلی

    مزید پڑھیے

    سدا سہاگن

    انگ بھون کا بادل گرجے قطرہ قطرہ جیون برسے دید آنگن میں چھڑے اجالا جسم سمندر پھر سے مہکے نٹ کھٹ ناری سائے نگل جا سا رے گا ما پا دھا نی سا گلیاں کوچے سونے رستے روشن ہوں گے آنکھیں ساری ابل پڑیں گی پاؤں میں جھانجھر باندھ لے پھر سے سا نی دھا پا ما گا رے سا

    مزید پڑھیے