Aazam Khursheed

اعظم خورشید

اعظم خورشید کی غزل

    تیرے ہونٹوں پہ سجا ہے کیا ہے

    تیرے ہونٹوں پہ سجا ہے کیا ہے تیرا ہر رنگ دعا ہے کیا ہے تیرے آنگن میں لٹا ہے کیا ہے وہ بھی بارش میں کھلا ہے کیا ہے رنگ چڑھتے ہیں اتر جاتے ہیں موسم ہجر پتہ ہے کیا ہے لوگ الفاظ بدل لیتے ہیں اور چہروں پہ لکھا ہے کیا ہے اپنی برباد نگاہی کے ستم ایک در اور کھلا ہے کیا ہے میرے ہاتھوں ...

    مزید پڑھیے

    تیرے ہونٹوں پہ نظر باقی ہے

    تیرے ہونٹوں پہ نظر باقی ہے کس کے ہونے کی خبر باقی ہے کتنے خوش رنگ بدن دھول ہوئے وقت کی چال مگر باقی ہے آج بھی غم کی سلامی کے لئے دل کا آباد نگر باقی ہے شب کی قندیل اٹھانے والے دیکھ چہروں پہ سحر باقی ہے درد کا چہرہ تھا برباد ہوا دشت میں سوکھا شجر باقی ہے خوں جواں خون سے ہولی ...

    مزید پڑھیے

    مرے وجود کے آنگن میں خواب روشن تھا

    مرے وجود کے آنگن میں خواب روشن تھا سواد ہجر میں تازہ گلاب روشن تھا کلی کلی کی زباں پر عذاب روشن تھا اے ہم سفر دل خانہ خراب روشن تھا یہ کس حساب میں جھیلی ہے میں نے در بہ دری ترے سوال بدن پر جواب روشن تھا میں اپنی آگ سے کھیلا میں اپنے آپ جلا حصار لمس میں اترا سحاب روشن تھا تو رت ...

    مزید پڑھیے

    سوچ دی ہے جواب بھی دے

    سوچ دی ہے جواب بھی دے کچھ تو یا رب حساب بھی دے قطرہ قطرہ شراب برسے تھوڑا تھوڑا عذاب بھی دے چاہتوں کے تو سلسلے ہیں موسموں کا شباب بھی دے اک کنارا ہے دوسرا بھی پانیوں میں حباب بھی دے جس کے کانٹے بھی مجھ کو چومیں کوئی ایسا گلاب بھی دے دھوپ ہنستی ہے واہمے بھی تیرگی دے سراب بھی ...

    مزید پڑھیے

    کس سے دل بہلاؤں میں

    کس سے دل بہلاؤں میں کس کے ناز اٹھاؤں میں نیند بھری ان آنکھوں میں خواب کہاں سے لاؤں میں میری باتیں تیری ہیں کون سی بات چھپاؤں میں شہر نے پوچھا گاؤں کا اس کو کیا بتلاؤں میں راہ میں کیسے دیر ہوئی کس کس کو سمجھاؤں میں صحرا صحرا بارش ہے دھوپ کدھر سے لاؤں میں

    مزید پڑھیے