آتش رضا کی غزل

    تمہارے طنز کا ہر ایک تیر زندہ ہے

    تمہارے طنز کا ہر ایک تیر زندہ ہے کہ کھا کے زخم دل بے ضمیر زندہ ہے مجھے خریدنے والا یہ کہہ کے لوٹ گیا عجیب شخص ہے اب تک ضمیر زندہ ہے سنائی دیتی ہے زنجیر کی سدا اکثر ہماری ذات میں شاید اسیر زندہ ہے ہمارا عہد ڈھلے گا ہمارے شعروں میں ہماری سوچ کی جب تک لکیر زندہ ہے اٹھا کے دیکھ لو ...

    مزید پڑھیے

    فطرت پہ اس کی میں ہوا حیران زیادہ

    فطرت پہ اس کی میں ہوا حیران زیادہ انساں کی شکل میں ملے شیطان زیادہ مجھ سے تمہارے حسن کی تحسیں نہ ہو سکی اتنی سی بات پہ اٹھا طوفان زیادہ اچھا تھا تجھ سے میری شناسائی نہیں تھی اے نا شناس میں ہوں پریشان زیادہ بارش ہے تیز چھت ہے شکستہ جگہ جگہ اس پہ ہمارے گھر میں ہیں مہمان ...

    مزید پڑھیے

    نظر میں کچھ نہ تھی پہلے کبھی توقیر مٹی کی

    نظر میں کچھ نہ تھی پہلے کبھی توقیر مٹی کی فرشتے دنگ ہیں اب دیکھ کے تقدیر مٹی کی ہزاروں نعمتیں دیتی ہیں لیکن ضرب سہ سہ کر خدا نے بھی بنائی ہے عجب تقدیر مٹی کی سنائی دے گی ظالم تجھ کو تب مجبور کی آہیں جکڑ لے گی ترے پیروں کو جب زنجیر مٹی کی کہ جیسے پیڑ کی ہر شاخ مجھ سے بات کرتی ہے کہ ...

    مزید پڑھیے

    حسین رخ پہ ابھی تم نقاب رہنے دو

    حسین رخ پہ ابھی تم نقاب رہنے دو نہ کھولو بند غزل کی کتاب رہنے دو اٹھوں گا دیکھنا اک دن میں آندھیوں کی طرح ابھی کرو نہ سوال و جواب رہنے دو ہم اپنا فرض کسی روز بھول بیٹھیں نا ہمارے کاندھوں پہ کنبے کا داب رہنے دو ہر ایک چیز کی مجھ میں تمیز ہے بھائی تم اپنے پاس عذاب و ثواب رہنے ...

    مزید پڑھیے

    کسی سے عشق مرا والہانہ ہوتے ہوئے

    کسی سے عشق مرا والہانہ ہوتے ہوئے میں خود کو دیکھ رہا ہوں فسانہ ہوتے ہوئے وہ ٹیلیفون کی گھنٹی یقیں دلاتی ہے مرے قریب ہے تو غائبانہ ہوتے ہوئے وہ نسل نو کے لئے دے گیا نیا فیشن میں جس لباس کو پہنوں پرانا ہوتے ہوئے مرا رقیب تھا جب تک مرے قریب رہا وہ مجھ سے دور ہے اب دوستانہ ہوتے ...

    مزید پڑھیے

    کہیں پہ دھوپ کہیں پر ہیں سائبان بہت

    کہیں پہ دھوپ کہیں پر ہیں سائبان بہت قدم قدم پہ ہیں دنیا میں امتحان بہت مجھے سپرد تو لوگوں نے کر دیا اس کے مگر عزیز ہے قاتل کو میری جان بہت اگر یہ چاہے تو اک پل میں انقلاب آئے ہماری قوم میں ایسے ہیں نوجوان بہت مگر دراڑ نہ آنے دی میں نے رشتے میں بھرے ہیں لوگوں نے ویسے تو میرے کان ...

    مزید پڑھیے

    پھول اچھا نہیں لگتا ہے چمن سے باہر

    پھول اچھا نہیں لگتا ہے چمن سے باہر بد نصیبی ہمیں لے آئی وطن سے باہر ایک بھی شخص اگر ہو تو بتا دو مجھ کو کون اس دور میں ہے رنج و محن سے باہر زر پرستو کبھی سوچا بھی ہے کہ کیوں آخر ہاتھ رکھے تھے سکندر کے کفن سے باہر چند سکے نہیں ملتی ہے اذیت پھر بھی لوگ اکثر چلے جاتے ہیں وطن سے ...

    مزید پڑھیے

    موت انسان کے جینے کا بدل ہوتی ہے

    موت انسان کے جینے کا بدل ہوتی ہے زندگانی میں ہی پوشیدہ اجل ہوتی ہے اے مرے کاتب تقدیر ذرا یہ تو بتا تیری تحریر بھی کیا رد و بدل ہوتی ہے تم اگر چاہو تو وہ خون بھی دے سکتا ہے ایک مظلوم کی ہر بات اٹل ہوتی ہے شعر گوئی کی اذیت بھی اذیت ہے عجیب قوت فکر ہر اک شعر پہ شل ہوتی ہے خون جلتا ...

    مزید پڑھیے