عاطف کمال رانا کی غزل

    ہوا آئی نہ ایندھن آ رہا ہے

    ہوا آئی نہ ایندھن آ رہا ہے چراغوں میں نیا پن آ رہا ہے جمال یار تیرے جھانکنے سے کنویں سے پانی روشن آ رہا ہے میں گلیوں میں نکلنا چاہتا ہوں مرے رستے میں آنگن آ رہا ہے مجھے شہتوت کی خواہش بہت تھی مگر مجھ پر تو جامن آ رہا ہے میاں میں اپنی جانب آ رہا ہوں خبر کر دو کہ دشمن آ رہا ...

    مزید پڑھیے

    تمہیں گلا ہی سہی ہم تماشہ کرتے ہیں

    تمہیں گلا ہی سہی ہم تماشہ کرتے ہیں مگر یہ لوگ بھی کیا کم تماشہ کرتے ہیں دکھائی دیتے نہیں اولاً مرے درویش کہیں ملیں تو بہ رقصم تماشہ کرتے ہیں یہ خاص بھیڑ ہے مرحوم بادشاہوں کی یہاں سکندر آعظم تماشہ کرتے ہیں شریک کار عبادت نہیں رہے کہ یہ لوگ درون مجلس ماتم تماشہ کرتے ہیں بس ایک ...

    مزید پڑھیے

    زنگ خوردہ لب اچانک آفتابی ہو گئے

    زنگ خوردہ لب اچانک آفتابی ہو گئے اس گل خوش رنگ کو چھو کر گلابی ہو گئے اس غزل پر آیت پیغمبری اتری ہے کیا لوگ کہتے ہیں کہ سب مصرعے صحابی ہو گئے جھومنے لگتے ہیں اس کو دیکھتے ہی باغ میں ایسے لگتا ہے پرندے بھی شرابی ہو گئے اب تو مجھ پر بھی نہیں کھلتا ہے دروازہ مرا تم تو آتے ہی مرے ...

    مزید پڑھیے

    اتنا ہی بہت ہے کہ یہ بارود ہے مجھ میں

    اتنا ہی بہت ہے کہ یہ بارود ہے مجھ میں انگارہ نما شخص بھی موجود ہے مجھ میں پوروں سے نکل آئی ہے اک برف کی ٹہنی اے دوست یہی آتش نمرود ہے مجھ میں ہر گیند کے پیچھے کوئی آتا ہے ہمیشہ یہ کون سے بچے کی اچھل کود ہے مجھ میں گالی نہیں اچھی تو تمہیں پیش کروں کیا اک اور بھی جملہ سخن آلود ہے ...

    مزید پڑھیے

    بہار زخم لب آتشیں ہوئی مجھ سے

    بہار زخم لب آتشیں ہوئی مجھ سے کہانی اور اثر آفریں ہوئی مجھ سے میں اک ستارہ اچھالا تو نور پھیل گیا شب فراق یوں ہی دل نشیں ہوئی مجھ سے گلاب تھا کہ مہکنے لگا مجھے چھو کر کلائی تھی کہ بہت مرمریں ہوئی مجھ سے بغل سے سانپ نکالے تو ہو گیا بدنام خراب اچھی طرح آستیں ہوئی مجھ سے کہاں سے ...

    مزید پڑھیے