Aasi Faiqi

عاصی فائقی

روایتی رنگ کی شاعری کرنے والے پرگو شاعر، متعدد شعری مجموعے شائع ہوئے

A poet to draw upon traditional poetics, published several poetry collections

عاصی فائقی کی غزل

    ہم سے ملتے ہیں وہ در پردہ شکایت کے عوض

    ہم سے ملتے ہیں وہ در پردہ شکایت کے عوض چاند روپوش ہو جس طرح لطافت کے عوض اپنی ہستی کو مٹا کر ہی تو پایا ہے اسے ہم کو حاصل ہے رضا اس کی اطاعت کے عوض زندگانی تری برباد نہیں ہوتی کبھی ہر عمل ہوتا جو الحمد کی آیت کے عوض حسن جدت سے بھی آراستہ کر لیجے کلام آپ پابند روایت نہ ہوں عادت کے ...

    مزید پڑھیے

    اس پہ کیا گزرے گی وقت مرگ اندازہ لگا

    اس پہ کیا گزرے گی وقت مرگ اندازہ لگا منتشر ہستی کا اپنی جس کو شیرازہ لگا اولیا اللہ کی چوکھٹ کے بھی آداب ہیں سر اٹھا کر جو بھی آیا اس کو دروازہ لگا نور کی چادر تنی ہے یوں فضائے دہر پر جیسے تارے توڑنے کو دست خمیازہ لگا جانے کس انداز سے اس شوخ نے ڈالی نظر جو پرانا زخم تھا وہ بھی ...

    مزید پڑھیے

    اس شوخ سے ملتے ہی ہوئی اپنی نظر تیز

    اس شوخ سے ملتے ہی ہوئی اپنی نظر تیز ہے مہر درخشاں کی شعاعوں کا اثر تیز وہ پیڑ جو تیزاب سے سیراب ہوا تھا اس پیڑ کا ہونے لگا ہر ایک ثمر تیز وہ منزل مقصود پہ پہنچے گا یقیناً جو راہ میں چلتا رہے بے خوف و خطر تیز دیتا ہے جدھر ان کو مفاد اپنا دکھائی ارباب ہوس شوق سے بڑھتے ہیں ادھر ...

    مزید پڑھیے

    آج اس نے نقاب الٹا ہے

    آج اس نے نقاب الٹا ہے پردۂ آفتاب الٹا ہے جلوہ فرما ہیں وہ لب دریا منظر آب و تاب الٹا ہے بحر ہستی میں مثل کاسۂ سر دیکھیے ہر حباب الٹا ہے آپ کا بھی کوئی جواب نہیں بات کا ہر جواب الٹا ہے راہ سیدھی کسے دکھائیں ہم یہ زمانہ جناب الٹا ہے پیش آئینہ لکھ رہے ہوں گے میرے خط کا جواب الٹا ...

    مزید پڑھیے

    برسوں کوئی ہمارے لئے جسم و جاں رہا

    برسوں کوئی ہمارے لئے جسم و جاں رہا لیکن وہ اب فریب کا عالم کہاں رہا ایسے بھی راستوں سے گزرنا پڑا کہ بس وہ بد گماں رہے کبھی میں بد گماں رہا حالات نے مٹا دئے ماضی کے سب نقوش اک نام تھا جو مٹ کے بھی ورد زباں رہا دھندلے سے کچھ نشاں ہیں گھٹاؤں کے دھیان میں اب وہ رہے نہ دور نہ پیر مغاں ...

    مزید پڑھیے

    تیرے غم خوار کا معمول خدا ہی جانے

    تیرے غم خوار کا معمول خدا ہی جانے کس قدر رہتا ہے مشغول خدا ہی جانے ہم نے الفت کا سبق سیکھا ہے دیوانوں سے اس کا باقاعدہ اسکول خدا ہی جانے جبہ سائی در جاناں پہ کیا کرتا ہوں کس لئے کیوں مرا معمول خدا ہی جانے اجڑے گلشن میں مرے دل کے بہاریں آئیں داغ دل بن گئے کیوں پھول خدا ہی ...

    مزید پڑھیے

    پرانے لوگ نئے کاروبار دیتے ہیں

    پرانے لوگ نئے کاروبار دیتے ہیں خزاں خرید کے فصل بہار دیتے ہیں ضرور ان کو محبت سے واسطہ ہوگا جو رنج و غم کے عوض ہم کو پیار دیتے ہیں شب وصال کی لذت انہیں نصیب ہوئی جو انتظار کی گھڑیاں گزار دیتے ہیں ہمارے اشک محبت میں قیمتی ٹھہرے غم حیات کی قسمت سنوار دیتے ہیں ملن کی رت پہ بشر ...

    مزید پڑھیے

    آپ کی ہستی کیا ہستی ہے

    آپ کی ہستی کیا ہستی ہے سرمستی ہی سرمستی ہے جب ہم آپس میں ملتے ہیں دنیا آوازیں کستی ہے مہنگائی کے یگ میں سوچو ماں کی ممتا کیوں سستی ہے بستی بسانا کھیل ہے کیا بستے بستے ہی بستی ہے یادوں کے دفتر میں آصیؔ گزرے لمحوں کی نستی ہے

    مزید پڑھیے