فرقان احمد صریقی

فرقان احمد صریقی کے تمام مواد

23 مضمون (Articles)

    دو ہزار اکیس کے ادب کے نوبل انعام یافتہ: عبدالرزاق گورنہ

    عبدالراق گورنہ

    ادب کا نوبل انعام 118 بار دیا گیا ہے۔ صرف 16 ایوارڈ خواتین کے پاس گئے ہیں ، ان میں سے سات اکیسویں صدی میں ہیں۔ 2019 میں ، سویڈش اکیڈمی نے وعدہ کیا کہ یہ ایوارڈ کم "مردانہ" اورکم تر  "یورو سینٹرک" بن جائے گا ، لیکن اس کے اگلے دو انعامات دو یورپیوں ، ہینڈکے اور پولینڈ کی مصنف اولگا ٹوکارکزوک کو دینے کے لیے آگے بڑھے۔ لیکن ہم امید رکھتے ہیں کہ مستقبل میں نوبل پرائز مزید شفاف، غیر یورپی اور غیر متعصب ہ

    مزید پڑھیے

    نشان حیدر سیریزـ اے جذبۂ دل، گر مَیں چاہوں!!!

    نشان حیدر

    کیپٹن عامر نے بتیس سالہ حوالدار لالک جان کہ حالت دیکھی تو انہیں بیس کمپ منتقل ہونے کا کہا۔ لیکن لالک جان نے کہا کہ وہ ہسپتال کے بستر کی بجائے میدان جنگ میں شہید ہونا چاہتے ہیں۔ کچھ دیر کے بعد دشمن کی جانب سے ایک بار پھر گولہ باری شروع ہو گئی۔ کیپٹن عامر نے اپنے تازہ دم سپاہیوں کے ساتھ مقابلہ کیا لیکن وہ کار گر ثابت نہ ہو سکا۔ پھر حوالدار لالک جان کو ان کے بے حد اصرار پر دشمن کے اس بنکر کو قریب سے تباہ کرنے کے لیے بھیجا گیا، جہاں سے گولہ باری ہو رہی تھی۔

    مزید پڑھیے

    نشان حیدر سیریز: دل والے خود ہی لکھ لیں گے سرخی اس افسانے کی

    نشان حیدر

    دشمن کے مطابق یہ ایک خود کش حملہ تھا کیونکہ صاف نظر آتا تھا کہ پاکستانی سپاہیوں اور دشمن کی قوت کا آپس میں کوئی مقابلہ نہیں ۔ کہا ں پاکستان کے چند سپاہی اور کہاں دشمن کی دو بٹالینز، جنھیں ہیلی کاپٹرز کی فضائی امداد بھی حاصل تھی۔ کرنل شیر خان کا یہ اقدام ٹیپو سلطان کے اس جملے کی یاد تازہ کرتا تھا کہ شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے۔

    مزید پڑھیے

    نشان حیدر سیریز: کہ خوف بس خدا کا ہے

    نشان حیدر

    انیس سو اکہتر کی جب جنگ چھڑی تو میجر اکرم کو مشرقی محاذ پر متعین کیا گیا۔ یہاں آپ کو آپ کی کمپنی سمیت ہلی جیسے مشکل علاقے میں تعینات کیا گیا۔ ہلی کا یہ مقام بھارتی حکمت عملی کے حوالے سے بہت ہی اہمیت کا حامل تھا۔ ہلی میں موجود ریلوے لائن کو بھارتی افواج تباہ کرنا چاہتی تھیں جو پاکستانی افواج کے لیے کمک کی فراہمی کا اہم ذریعہ تھی۔

    مزید پڑھیے

    نشان حیدر سیریز : مسافرانِ رہِ وفا

    نشان حیدر

    انھوں نے کچھ دور اپنے ہی ایک ساتھی کو شہید دیکھا۔ اب وہ تو شہید ہو چکا تھالیکن اس کی مشین گن قابل استعمال حالت میں پڑی تھی۔ زخمی لانس نائک نے اپنے شہید ساتھی کی مشین گن پکڑی اور دشمن پر فائر کھول دیا۔ کچھ دیر بعد انھوں نے دیکھا کہ دشمن کے مورچے سے ایک مشین گن پاکستانی سپاہیوں کو بہت زک پہنچا رہی ہے۔ محفوظ نے اپنا مورچہ چھوڑا اور اس مورچے پر بغیر کسی ہتھیار کے نہتے پہنچ گئے

    مزید پڑھیے

تمام