ظلم یاد آئے کبھی ان کے ستم یاد آئے

ظلم یاد آئے کبھی ان کے ستم یاد آئے
یہ بجا ہے کہ بہ انداز کرم یاد آئے


پھیر لیں اپنوں نے غیروں کی طرح جب آنکھیں
کس قدر اس گھڑی غیروں کے کرم یاد آئے


نہ ملا جب کسی صورت رہ ہستی کا سراغ
کاروانوں کو مرے نقش قدم یاد آئے


عیش کے دن رہے غیروں کے لئے سب مخصوص
وقت جب سخت پڑا کوئی تو ہم یاد آئے


دیکھ کر غیروں کی بے لوث وفا کو منظرؔ
بے بسی میں ہمیں اپنوں کے ستم یاد آئے