ظلم و ستم کا جبر کا انجام کیا ہوا

ظلم و ستم کا جبر کا انجام کیا ہوا
تھا نامور تو خوب مگر نام کیا ہوا


یہ پوچھتی ہے وقت کی دیمک بتا ذرا
جمشید تو کہاں ہے ترا جام کیا ہوا


جلتے مچلتے غم میں پگھلتے رہے مگر
آئی جو صبح بھول گئے شام کیا ہوا


میرا دیا بجھا نہ سکی سر پھری ہوا
روٹھی ہے تو بھی گردش ایام کیا ہوا


راون تھا میں تو اف کی بھی جرأت کسی میں تھی
بن باس مل گیا جو قمرؔ رام کیا ہوا