ظلم کی کچھ میعاد نہیں ہے
ظلم کی کچھ میعاد نہیں ہے
داد نہیں فریاد نہیں ہے
قتل ہوئے ہیں اب تک کتنے
کوئے ستم کو یاد نہیں ہے
آخر روئیں کس کو کس کو
کون ہے جو برباد نہیں ہے
قید چمن بھی بن جاتا ہے
مرغ چمن آزاد نہیں ہے
لطف ہی کیا گر اپنے مقابل
سطوت برق و باد نہیں ہے
سب ہوں شاداں سب ہوں خنداں
تنہا کوئی شاد نہیں ہے
دعوت رنگ و نکہت ہے یہ
خندۂ گل برباد نہیں ہے