بھارت میں مساجد کے عدالتی قبضے کی کاوشیں: بابری مسجد کے بعد اب گیان واپی مسجد
یہ ہندو برادری کی جیت ہے۔ اگلی سماعت 22 ستمبر کو ہے۔ یہ (فیصلہ) گیان واپی مندر کا سنگ بنیاد ہے۔
یہ الفاظ سوہن لال آریا نامی اس ہندو پجارن کے ہیں جس نے اپنی چار ساتھیوں کے ساتھ بنارس کی مقامی عدالت میں گیان واپی مسجد میں پوجا پاٹ کی اجازت چاہی تھی۔ کیونکہ سولہ مئی 2022 کو عدالت کے احکامات پر مسجد کے ویڈیو سروے کے دوران دعویٰ سامنے آیا تھا کہ اس مسجد کے وضو خانے کے پاس دیوتا شیوا کا شیو لنگ ملا ہے۔ مسلمانوں نے اس دعوے کو یہ کہتے ہوئے مسترد کر دیا تھا کہ بھئی یہ تو فوارہ ہے جس کو آپ شیو لنگ قرار دے رہے ہیں۔ لیکن عدالت نے مسجد کے اس احاطے کو سیل کرنے کے احکامات جاری کر دیے تھے۔
محترم قارئین! آپ کو بھارتی جنتا پارٹی کی رہنما نوپور شرما کی ٹائمز نیوز کے ایک پروگرام میں نبی پاک حضرت محمد ﷺ اور ان کی ازواج مطہرات کی گستاخی یاد ہوگی۔ یہ گستاخی نوپور شرما نے اسی دعوے پر بحث کے دوران کی تھی۔ بادی النظرمیں وہ یہ کہہ رہی تھی تم ہمارے دیوتا شیوا کے شیو لنگ کو فوارہ کہہ کر سراسر گستاخی کر رہے ہو۔ اگر تم ایسا کرو گے تو لو پھر میں یہ کہوں گی۔ وضاحت کے لیے بتاتا چلوں کہ بحث کے دوران جو مسلمان رہنما موجود تھے وہ شیولنگ کو فوارہ تمسخرانہ یا طنزیہ طور پر نہیں کہہ رہے تھے۔ وہ صرف یہ بتا رہے تھے کہ جس چیز کو ہندو شیولنگ کہہ رہے ہیں وہ وضو خانے کے نزدیک فوارہ ہے اور کچھ نہیں۔ لیکن نوپور شرما نے ان کے موقف کو کوئی اور ہی رنگ دینے کی کوشش کی۔
بہر کیف، پانچ ہندو پجارنوں نے بنارس کی ایک عدالت میں درخواست دائر کی تھی، جس میں انہوں نے شیولنگ مل جانے کے بعد مسجد میں پوجا پاٹ کی اجازت چاہی۔ بی بی سی کے مطابق ان پجارنوں کی درخواست میں دعویٰ ہے کہ مسجد کی بیرونی دیوار پر بت موجود ہیں۔
مسلمانوں کی جانب سے انجمن انتظامیہ مساجد کمیٹی نے پجارنوں کی درخواست کو یہ کہتے ہوئے چیلنج کیا کہ یہ درخواست 1991 کے عبادت گاہوں سے متعلق ایکٹ کے خلاف ہے۔ لہٰذا اس پر سماعت نہیں کی جا سکتی۔ عدالت نے انجمن انتظامیہ مساجد کمیٹی کی اپیل کو مسترد کر کے اسے قابل سماعت قرار دیا ہے۔ عدالت کے اس آرڈر پر مسلمانوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے کہ یہ معاملہ تو بابری مسجد کی صورت اختیار کر رہا ہے۔ مسلمان اکابرین اور دیگر آزاد رائے رکھنے والے افراد کا خیال ہے کہ عدالت کا یہ آرڈر واقعی 1991 کے عبادت گاہوں سے متعلق ایکٹ کے منافی ہے۔ ان کے اس موقف کو سمجھنے کے لیے ہم 1991 کے ایکٹ کی کچھ وضاحت دیکھ لیتے ہیں۔
بھارت کا 1991 کا عبادت گاہوں سے متعلق ایکٹ کیا ہے؟
مختصراً یہ کہ اس ایکٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت میں سوائے بابری مسجد کے کسی عبادت گاہ کی صورت کو پندرہ اگست 1947 کے بعد تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ یعنی اگر کوئی مسجد 15 اگست 1947 کو موجود تھی تو اب وہ مسجد ہی رہے گی، اسے مندر، کلیسہ یا معبد کسی میں تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ اسی طرح اگر کوئی عبادت گاہ مندر تھی تو وہ اب مندر ہی رہے گی۔ صرف بابری مسجد کو اس ایکٹ سے باہر رکھا گیا تھا۔ اس رو سے بہت سے ماہرین عدالتی آرڈر کو سخت ہدف تنقید بناتے ہوئے اسے 1991 کے ایکٹ کے برخلاف قرار دے رہے ہیں۔ لیکن بعض اسے 1958 کے ایک اور قانون کا سہارا لیتے ہوئے 1991 کے ایکٹ کی دسترس سے باہر قرار دے رہے ہیں۔ بہرحال رپورٹس کے مطابق عدالت نے پجارنوں کی درخواست کو قابل سماعت یہ کہتے ہوئے قرار دیا ہے کہ وہ تو صرف وہاں پوجا پاٹ کی اجازت چاہ رہی ہیں۔ اسے مندر میں تبدیل کرنا تو نہیں۔ لیکن میں نے تحریر کے شروع میں ہی درخواست گزار پجارن کا خوشی بھرا بیان نقل کیا ہے۔ اس سے پجارن کی نیت صاف معلوم ہوتی ہے۔
مسلمان رہنما اسد الدین اویسی نے بھی اس فیصلے کے خلاف تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ بات صرف اس مسجد تک تو نہیں رہے گی۔ یہ معاملہ تو بہت دور تک جائے گا۔ کیونکہ وضاحت کرتے چلیں کہ گیان واپی مسجد کا مسئلہ بھی آج یا چند دن پہلے کا نہیں ہے۔ 1991 سے جاری ہے۔ اب چونکہ ہندتوا اپنی پورے جوبن پر مسلم کش اقدامات پر اتری ہوئی ہے تو اس کیس میں تیزی دیکھی جا رہی ہے۔ آپ کو ہم گیان واپی مسجد کے پورے مسئلے کی مختصراً تاریخ عرض کیے دیتے ہیں۔
گیان واپی مسئلے کی تاریخ:
گیان واپی مسجد، شاہی عید گاہ مسجد متھرا، قطب مینار اور تاج محل، سب انتہا پسند ہندوؤں کی زد میں ہیں۔
بنارس کی گیان واپی مسجد کیس، جس پر یہ آرڈر سامنے آیا ہے ، کا تفصیلاً ذکر کریں تو بات کچھ یوں ہے کہ 1991 میں بنارس کی سول کورٹ میں ایک درخواست دائر ہوئی۔ درخواست میں ہندو دیوتا رام وشی وشو کو فریق بنا کر دعویٰ کیا گیا کہ مسجد دراصل مندر تھی، جسے اورنگ زیب نے گرا دیا تھا۔ حالانکہ بھارت کی مقننہ نے مذہبی مقامات کے تحفظ کا ایکٹ پاس کر رکھا ہے، جس کے تحت کسی بھی مذہبی جگہ کو 1947 والی حیثیت سے نہیں ہلایا جا سکتا۔ اس ایکٹ کے مطابق درخواست کو فوراً خارج ہونا چاہیے تھا لیکن عدالت نے اسے سماعت کے لیے مقرر کر لیا۔
کیس چلتا رہا اور اپریل 2021 کو عدالت نے بھارت کے اثار قدیمہ کے محکمے کو سروے کا حکم دیا کہ وہ مندر کی موجودگی کا پتہ چلائے۔ ستمبر میں الہ آباد کی ہائی کورٹ نے سروے کو روک دیا۔ لیکن اس سے پہلے ہی اگست میں بنارس کی عدالت میں ایک دوسری درخواست آ چکی تھی، جس میں مسجد میں دیوتاؤں کی باقیات کو محفوظ بنانے اور پوجا پاٹ کی اجازت مانگی گئی تھی۔ اس درخواست پر بنارس کی سول کورٹ نے اپریل 2022 میں پھر سروے کا حکم دے ڈالا۔ اس بار یہ بھی کہا گیا کہ سروے ویڈیو گرافک ہوگا۔ اسی سروے میں سولہ مئی کو دعویٰ کر دیا گیا کہ مسجد کے وضو خانے کے نزدیک دیوتا کی نشانی ملی ہے۔ مسلمانوں نے کہا کہ یہ تو فوارہ ہے لیکن عدالت نے مسجد کو سیل کرنے کا حکم جاری کر دیا۔ صرف بیس مسلمانوں کو اجازت دی کہ وہ ایک وقت میں نماز پڑھ سکتے ہیں۔ لیکن بھارتی سپریم کورٹ نے بیس مسلمانوں کی قدغن کو ہٹاتے ہوئے تمام مسلمانوں کو عبادت کی اجازت دے دی تھی۔ تاہم اب پجارنوں کی درخواست قابل سماعت پائی ہے تو مسلمانوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔
جب بابری مسجد کو مسمار کرنےکے بعد اس کی زمین ہندوؤں کے حوالے کرنی تھی تب بھی اسی قسم کی حرکات کی گئیں تھیں۔ اس وقت بھارت میں اسی پر بحث جاری ہے۔محسوس ہوتا ہے کہ اس ہندتوا حکومت میں مسلمانوں کے لیے خیر نکلنا بہت ہی مشکل ہے۔