زندگی تو بھی بے وفا نکلی

زندگی تو بھی بے وفا نکلی
کیا سمجھتے تھے اور کیا نکلی


گھر کے دیوار و در بھی کانپ گئے
دل کے گوشے سے جب صدا نکلی


رو پڑی وہ ہوئی اداس بہت
میرے آنگن سے جب صبا نکلی


تار نازک تھے دل کے ٹوٹ گئے
چھیڑ کر جب وہ دل ربا نکلی


ہم عنایت جسے سمجھ کے چلے
وہ بھی آخر کڑی سزا نکلی


دوستوں نے کئے کرم ہم پر
ہر دعا ان کی بد دعا نکلی


جس بلا سے ہمیشہ بچ کے چلے
موڑ پر ہر گلی کے آ نکلی


جس کو نیکی سمجھ کے تو خوش تھا
وہ بھی عازمؔ تری خطا نکلی