زندگی سلسلۂ وہم و گماں ہے یارو
زندگی سلسلۂ وہم و گماں ہے یارو
دل بے تاب کو تسکین کہاں ہے یارو
وہی صیاد کی گھاتیں ہیں وہی کنج قفس
فصل گل رہن غم جور خزاں ہے یارو
وہی افکار کی الجھن وہی ماحول کا جبر
ذہن پا بستہ زنجیر گراں ہے یارو
وہی حسرت وہی لب اور وہی مہر سکوت
شوق کو جرأت اظہار کہاں ہے یارو
عزم کی رہ بھی وہی راہ میں کانٹے بھی وہی
دور کوسوں مری منزل کا نشاں ہے یارو
بے وفائی کا خدارا مجھے الزام نہ دو
تم پہ حال دل بیتاب عیاں ہے یارو
کاش میں کہہ بھی سکوں کاش کوئی سن بھی سکے
آہ وہ راز کہ جو راز نہاں ہے یارو
میرے ہونٹوں پہ ہے اک نغمۂ بے صوت و صدا
دل میں اک محشر فریاد و فغاں ہے یارو
اک تغافل کہ جو ہے وجہ پریشانئ دل
ایک یاد ان کی ہے جو راحت جاں ہے یارو
آج ساحل کے قریں ڈوبنے والا ہے مجیدؔ
ناخدا کو تو پکارو وہ کہاں ہے یارو