زندگی سے تھکی تھکی ہو کیا

زندگی سے تھکی تھکی ہو کیا
تم بھی بے وجہ جی رہی ہو کیا


دیکھ کر تم کو کھلنے لگتے ہیں
تم گلوں سے بھی بولتی ہو کیا


اس قدر جو سجی ہوئی ہو تم
میری خاطر سجی ہوئی ہو کیا


میں تو مرجھا گیا ہوں اب کے برس
تم کہیں اب بھی کھل رہی ہو کیا


آج یہ شام بھیگتی کیوں ہے
تم کہیں چھپ کے رو رہی ہو کیا


اس کی خوشبو نہیں رہی ویسی
شہر سے اپنے جا چکی ہو کیا