زندگی سے مری اس طرح ملاقات ہوئی

زندگی سے مری اس طرح ملاقات ہوئی
لب ہلے آنکھ ملی اور نہ کوئی بات ہوئی


درد کی دھوپ نہیں یاد کا سایہ بھی نہیں
اب تو قسمت میری بے رنگئ حالات ہوئی


صرف کل ہی نہیں اس دور میں بھی دیدہ وری
نذر اوہام ہوئی صید روایات ہوئی


کل تو محور تھے مری ذات کے یہ کون و مکاں
کائنات آج جو سمٹی تو مری ذات ہوئی


سر کو پھوڑا کئے پتھر سے سمندر سے لڑے
صبح یوں شام ہوئی شام سے یوں رات ہوئی


گھر مرا دیکھ لیا سیل بلا نے شبلیؔ
آگہی کیا ہوئی اک درد کی سوغات ہوئی