زندگی نے فصل گل کو بھی پشیماں کر دیا
زندگی نے فصل گل کو بھی پشیماں کر دیا
جس بیاباں پر نظر ڈالی گلستاں کر دیا
تو نے یہ کیا اے سکوت شکوہ ساماں کر دیا
دل کی دل ہی میں رہی ان کو پشیماں کر دیا
شکریہ اے موسم گل پاس وحشت ہے یہی
گلستاں کو تو نے ہم دیوار زنداں کر دیا
کتنے افسانے بنا کر رکھ لئے تھے شوق نے
یوں نقاب الٹی حقیقت نے کہ حیراں کر دیا
کس قدر مضبوط نکلے تیرے دیوانے کے ہاتھ
شام غم کو جب نچوڑا صبح تاباں کر دیا
پھول برسائے ہیں کیا کیا تیغ خوں آشام نے
تم نے شہر گل عذاراں کو گلستاں کر دیا
سینۂ صنعت میں بھر کر اپنے دل کا اضطراب
آہن و فولاد کو میں نے غزل خواں کر دیا