زندگی میں اس کو کیف زندگی حاصل نہیں
زندگی میں اس کو کیف زندگی حاصل نہیں
جس کا دل راز و نیاز عشق کے قابل نہیں
حسن کے پردے میں ہو سکتا نہیں ہرگز قرار
روز اول سے یہ لیلیٰ خوگر محمل نہیں
قدر کر دل کی کہ درگاہ خدا میں اے ندیم
دو جہاں کی نعمتیں حاضر ہیں لیکن دل نہیں
ہوشیار اے مست و مدہوش جوانی ہوشیار
عشق وہ دریا ہے جو منت کش ساحل نہیں
ضبط نالہ ضبط گریہ ضبط الفت ضبط شوق
کس طرح کہہ دوں کہ یہ آسانیاں مشکل نہیں
اپنا رستہ اپنی دھن اپنا تصور اپنا شوق
کوئی بھی رہبرو یہاں بیگانۂ منزل نہیں
ہے تصور عشرت ماضی کا آئینہ بدست
دل وہی دل ہے مگر وہ گرمئ محفل نہیں
دیر کیا ہے آ مرے دل میں سما جا برق ناز
شکوہ سنجی فطرت احسان میں داخل نہیں
التماس شوق پر احسانؔ محشر ڈھ گیا
ان کا شرما کر یہ کہنا میں ترے قابل نہیں