زندگی کس مقام سے گزری
زندگی کس مقام سے گزری
حسرت ننگ و نام سے گزری
خوب آپس میں جام ٹکرائے
شام اس اہتمام سے گزری
جانے وہ تھے کہ میرا حسن خیال
اک تجلی سی بام سے گزری
کوئی رہ رو نہ کوئی رہبر تھا
جستجو جس مقام سے گزری
وادی مرگ سے گزر کر نقشؔ
روح سوز دوام سے گزری