زندگی کرنے کے حیلے نہ بہانے آئے
زندگی کرنے کے حیلے نہ بہانے آئے
ہم تو دنیا میں فقط خاک اڑانے آئے
یاد ماضی میں فراموش کیا فردا کو
عرصۂ عشق میں ایسے بھی زمانے آئے
دل وہ بستی ہے اجڑ جائے تو بستی ہی نہیں
کتنے سادہ ہیں اسے پھر سے بسانے آئے
مسئلہ کوئی نہیں ایسا جو حل ہو نہ سکے
بس اسی بات پہ دنیا کو منانے آئے
وہ سیاست ہے کہ ہر روشنی تاریک ہوئی
پھر بھی ہم مشعل جاں اپنی جلانے آئے
جب بھی بازار میں خودداریاں نیلام ہوئیں
دام ان کے بھی تو ہم جیسے بڑھانے آئے
اب کے کیا تھا کہ خزاں نے بھی تو مردہ نہ کیا
موسم گل سے کہو ہم کو رلانے آئے