زندگی ایک خواب لگتی ہے
زندگی ایک خواب لگتی ہے
ہر حقیقت سراب لگتی ہے
ساعت قرب تھی کہ موج بہار
یاد اس کی گلاب لگتی ہے
داستاں میری سن سکو تو سنو
درد و غم کی کتاب لگتی ہے
اس قدر پیار اس قدر نفرت
تیری فطرت حباب لگتی ہے
زیست لٹکی ہے اب صلیبوں پر
ہر تمنا عذاب لگتی ہے
چہرے کمھلا رہے ہیں کلیوں کے
نیت گل خراب لگتی ہے
عاصمہؔ ہر کتاب زیست مجھے
موت کا انتساب لگتی ہے