زندگی درد بھی دوا بھی تھی
زندگی درد بھی دوا بھی تھی
ہم سفر بھی گریز پا بھی تھی
کچھ تو تھے دوست بھی وفا دشمن
کچھ مری آنکھ میں حیا بھی تھی
دن کا اپنا بھی شور تھا لیکن
شب کی آواز بے صدا بھی تھی
عشق نے ہم کو غیب دان کیا
یہی تحفہ یہی سزا بھی تھی
گرد باد وفا سے پہلے تک
سر پہ خیمہ بھی تھا ردا بھی تھی
ماں کی آنکھیں چراغ تھیں جس میں
میرے ہمراہ وہ دعا بھی تھی
کچھ تو تھی رہ گزر میں شمع طلب
اور کچھ تیز وہ ہوا بھی تھی
بے وفا تو وہ خیر تھا امجدؔ
لیکن اس میں کہیں وفا بھی تھی