زندگی داؤ پہ ہر آن لگی رہتی ہے
زندگی داؤ پہ ہر آن لگی رہتی ہے
دل کی بازی میں سدا جان لگی رہتی ہے
ہیں ترے معرکہ آرا کہ تماشائی ہیں
بھیڑ کیسی سر میدان لگی رہتی ہے
کوئی بلقیس نظر آئے نہ آئے پھر بھی
کھوج میں روح سلیمان لگی رہتی ہے
خلق عمال سے نالاں ہے مگر یاروں کو
فکر خوش نودیٔ سلطان لگی رہتی ہے
بخت سازان رعایا میں کشش ہے کتنی
ہر نظر جانب ایوان لگی رہتی ہے
کیوں بدلتا نہیں تو اس کو توانائی میں
آگ تو اے دل حیران لگی رہتی ہے
آدمی شوق سے فارغ نہیں رہتا گلزارؔ
دھن کوئی زیست کے دوران لگی رہتی ہے