زندگی کی نقش گری
وقت گزرتا رہا۔ سندھ، دجلہ اور نیل کی وادیوں میں تہذیبیں ابھرتی اور مٹتی رہیں۔ ایران، چین اور یونان میں علم و دانش کے چراغ جلتے اور بجھتے رہے، رومۃ الکبریٰ کا غلغلہ بلند ہوا اور فضا میں گم ہو گیا۔ عباسیوں اور مغلوں کے پرچم بڑے جاہ و جلال سے لہرائے اور سرنگوں ہو گئے، مغربی علوم کی روشنی دور دور تک پھیلی مگر انسانی تہذیب کے اولین گہواروں میں اندھیرا ہی رہا۔
غار افسانہ بھی ہیں اور تاریخ بھی۔ وہم کی آنکھوں سے دیکھو تو ان غاروں میں ہر سمت موت کے مہیب سائے ناچتے نظر آئیں گے۔ آدم خور دیوؤں کی چنگھاڑیں، بیتالوں اور بھوتوں کے خوفناک قہقہے، چمگادڑوں کے روپ میں ادھر ادھر اڑتی ہوئی بدروحیں اور پچھل پائیاں- منھ سے آگ اگلنے والے اژدہے اور انہیں کے آس پاس بھٹوں میں چھپے ہوئے شیر، بھالو، بھیڑیے، ڈاکو اور راہ زن۔۔۔ غرض روایت نے غاروں کے ان دہشت ناک باشندوں کے تذکرے جا بجا ملتے ہیں۔ وہ غار ہی تھا جس میں کانے دیونے ہومر کے ہیرو اوڈیسیس کو ساتھیوں سمیت قید کیا تھا اور چالاک اوڈیسیس نے دیو کو نشہ پلایا تھا اور جب دیو مدہوش ہوگیا تھا تو اس کی آنکھ میں لوہے کی گرم سلائی پھیردی تھی اور بھیڑ کے پیٹ سے لپٹ کر غار سے فرار ہوا تھا اور وہ بھی غار تھا جس میں علی بابا کے بھائی کو دولت کی ہوس لے گئی تھی مگر وہ ’’کھل جا سم سم‘‘ کا طلسمی کلمہ بھول گیا تھا اور ڈاکوؤں نے اسے قتل کرنے کے لاش درخت سے لٹکا دی تھی۔
مگر تاریخ کی آنکھ سے دیکھو تو یہی غار انسان کی قدیم ترین پناہ گاہ نظر آئیں گے جہاں اس نے اپنی ۲۵، ۳۰، لاکھ سالہ زندگی کی بیش تر مدت بسر کی ہے۔ وہیں اس نے افزائش نسل کے راز سیکھے، موسم کی سخت گیریوں سے بچنے کے طریقے وضع کیے، آگ جلانے کے تجربے کیے، اور اس طرح تسخیر قدرت اور کیمیاوی عمل کے ایک ایسے انقلابی راز سے آگاہ ہوا جس نے آگے چل کر اسے اقلیمِ ارض کی فرماں روائی عطا کی۔ یہ غار اس کے اولین مولد و مسکن بھی تھے اور معبد و مقابر بھی۔ یہاں پہنچ کر وہ تمام ارضی و سماوی آفتوں سے محفوظ ہو جاتا تھا۔ یہ غار رحمِ مادر سے بھی کسی قدر مشابہ تھے۔ اپنی ظاہری شکل میں بھی اور باطنی کیفیت میں بھی۔ وہی پر اسرار تاریکی، وہی پیچ وخم اور امن وعافیت کا وہی احساس۔
مگر انسان کی فراموش طبعی دیکھو کہ لاکھوں سال ان غاروں میں رہنے کے بعد جب اس نے یہ مسکن ترک کیے اور جھونپڑے، گاؤں اور شہر بسائے تو پھر ان غاروں کی طرف پلٹ کر بھی نہ دیکھا۔ انہیں ایسا بھولا گویا ان سے کبھی وابستہ ہی نہ تھا۔ غاروں کے دہانے، چٹانوں، مٹی کے ملبوں اور جنگلی جھاڑیوں سے پٹ گئے۔ ان کی تلخ اور شیریں یادیں ذہنوں سے محو ہوگئیں اور آنے والی نسلیں اس حقیقت سے بھی واقف نہ رہیں کہ ان کے آباء و اجداد کبھی غاروں میں رہتے تھے۔
وقت گزرتا رہا۔ سندھ، دجلہ اور نیل کی وادیوں میں تہذیبیں ابھرتی اور مٹتی رہیں۔ ایران، چین اور یونان میں علم ودانش کے چراغ جلتے اور بجھتے رہے۔ رومۃ الکبریٰ کا غلغلہ بلند ہوا اور فضا میں گم ہو گیا۔ عباسیوں اور مغلوں کے پرچم بڑے جاہ و جلال سے لہرائے اور سرنگوں ہوگئے۔ مغربی علوم کی روشنی دور دور تک پھیلی مگر انسانی تہذیب کے اولین گہواروں میں اندھیرا ہی رہا۔
پھر یوں ہوا کہ انیسویں صدی کی ایک روشن سہ پہر میں اسپین کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں ایک کتا ایک لومڑی کا پیچھا کرتے کرتے ایک بھٹ میں گھس گیا۔ کتے کا مالک مارسیلو و اساؤ تولا کتے کو نکالنے کی غرض سے بھٹ میں اترا تو پتہ چلا کہ اندر اچھا بڑا غار ہے۔ مار سیلوواساؤ تولا کو آثار قدیمہ کا شوق تھا۔ اس نے غار کو گھودنا شروع کیا کہ شاید اس کے اندر پرانے زمانے کی کچھ چیزیں مل جائیں۔ ایک دن وہ غار میں اترا تو اس کی کمسن بچی ماریا بھی اس کے ہمراہ تھی۔ ساؤتولا غار کھودنے میں مصروف ہوگیا اور ماریا پتھر کے ٹکڑوں سے کھیلنے لگی۔ دفعتاً ساؤتولا نے ماریا کی چیخ سنی۔ ’’تورو، تورو (بیل بیل) ساؤ تولا بچی کی طرف لپکا مگر وہ حیران تھا کہ اس تنگ غار میں بیل کہاں سے آئے۔ وہ ماریا کے پاس پہنچاتو ماریا غار کی چھت کو ٹکٹکی باندھے دیکھ رہی تھی۔ ساؤتولا کو جب بیل کہیں نظر نہ آئے تواس نے بچی سے پوچھا اور تب بڑی مشکل سے اس کی آنکھوں نے وہ نظارہ دیکھا جسے بیس ہزار سال سے کسی انسان نے نہ دیکھا تھا۔ سرخ اور سیاہ رنگ کے بیلوں کی ایک لمبی قطار تھی جو چھت پرایک سرے سے دوسرے سرے تک پھیلی ہوئی تھی۔ یہ التمیرا کا غار تھا جس میں قدیم حجری انسان نے اپنی فن کاری کا مظاہرہ کیا تھا اور جس کو ساؤتولا نے ۱۸۷۹ء میں اتفاقاً دیکھ لیا۔
ساؤتولا نے غار کی دیواروں کو غور سے دیکھا تو کہیں رنگین بھنسیے اور بیل بنے ہوئے کہیں جنگلی سور، کہیں ہرن اور چیتل، کہیں ہاتھ کے چھاپے۔ شمار کیا تو اس نگار خانے میں جانوروں کی ۱۷۰؍ تصویریں تھیں۔ ان کے رنگ اس قدر شوق اور روشن تھے گویا یہ تصویریں ابھی کل بنی ہوں۔ ساؤتولا نے اپنے اس حیرت انگیز انکشاف کا اعلان اخباروں میں کیا اور آثار قدیمہ کے ماہروں سے درخواست کی کہ وہ آکر غار کا مطالعہ کریں لیکن دانایانِ مغرب نے ساؤتولا کا مذاق اڑایا۔ کسی نے کہا یہ اسکول کے لڑکوں کا کھلواڑ ہے۔ کسی نے کہا مقامی چرواہوں نے اپنی اکتاہٹ دور کرنے کی خاطر مویشیوں کی تصویریں بنائی ہوں گی۔ بعضوں نے غریب ساؤتولا نے میڈرڈ کے کسی مصور سے ساز باز کیا ہوگا۔ تجارت اور شہرت کی خاطر۔ غرض کہ نہ حکومت نے ان دیواری تصویروں کی طرف توجہ کی اور نہ ماہرینِ فن نے اس غار کو درخور اعتنا سمجھا۔ بے چارہ ساؤتولا خاموش ہو رہا ہو۔
یہ درست ہے کہ التمیرا کی دریافت سے بہت پہلے آثار قدیمہ کے ماہروں کو عہد قدیم کے پتھر کے اوزار، ہاتھی دانت کے ٹکڑوں پر کھدے ہوئے نقوش اور سیپ اور ہڈی کے زیورات دست یاب ہو چکے تھے۔ مثلاً بروئیلے (Brouillet) نامی ایک فرانسیسی ماہر کو سوینی (ِِSavigny) کے مقام پر ہڈی کا ایک ٹکڑا انیسویں صدی کی ابتدا میں ملا تھا۔ اس ٹکڑے پر دو ہرن کندہ تھے۔ کلونی کے عجائب گھر نے ۱۸۵۱ء میں ہڈی کے اس منقوش ٹکڑے کو حاصل کر لیا تھا مگر کسی کو اس کی قدامت پر غور کرنے کی توفیق نہیں ہوئی تھی۔
اسی طرح ۱۸۳۳ء میں میئر Mayor نامی ایک انگریز محقق کو ہڈی کی ایک چھڑی ملی تھی جس کے ایک رخ پر ایک گھوڑا کندہ تھا اور دوسری طرف ایک پودا بنا تھا۔ ۱۸۵۲ء میں آری ناک (فرانس) کے مقام پر ہڈیوں کا ایک ہار اور ہیڈ اور ہاتھی دانت کے چند زیورات بھی دریافت ہوئے تھے۔ ایڈوارڈلار تیت کومسات Massat کے مقام پر بارہ سنگھے کی ہڈی پر ریچھ کا سر کھدا ہوا ملا تھا اور ۱۸۶۳ء میں اسے وزیر ندی کی وادی میں جو پیرس سے ڈھائی سو میل جنوب مغرب میں واقع ہے متعدد چھوٹی چھوٹی چیزیں اور آلات و اوزار دستیاب ہوئے تھے۔ چنانچہ ۱۸۶۴ء میں اس نے ان دریافتوں پر ایک مختصر سا رسالہ فرانسیسی زبان میں شائع بھی کیا تھا۔ اسی سال اس کو مارلین (فرانس) کے مقام پر میمتھ کا ایک دانت ملا تھا جس پر نہایت باریک خطوں میں اس ناپید جانور کی شکل کندہ تھی۔
یہ تو خیر چھوٹی چھوٹی منقولہ اشیا تھیں جن سے قدیم انسان کی فنکاری کا کوئی واضح تصور قائم کرنا قدرے دشوار تھا مگر حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ التمیرا سے پیش تر دنیا کے مختلف گوشوں میں چٹانوں پر اور غاروں میں جو تصویریں اور نقوش ملے، ان کی تاریخی اہمیت کو بھی نظرانداز کردیا گیا۔ مثلاً ۱۸۳۷ء میں سرجارج گرے نے آسٹریلیا کی ساحیت کے دوران اقلیدسی انداز کی بڑی پراسرار رنگین تصویریں کمبر لے کی کوہستانی پناہ گاہوں میں دریافت کی تھیں۔ ۱۸۴۸ء میں جھیل اور نیگا (روس) کے مشرقی ساحل پر غاروں میں متعدد نقوش دیواروں پر کھدے ہوئے ملے تھے۔ یہ وہیل مچھلی، بارہ سنگھے اور ایلک کے نقوش تھے۔ انہیں دنوں سٹو (Stowr) کو جنوبی افریقہ کی چٹانوں پر اقلیدسی انداز کی مصوری کے چند نادر نمونے نظر آئے تھے اور اس نے ان کو بڑی محنت سے نقل کر لیا تھا مگر یہ نقش و نگار تہذیب کے اصل مرکز یعنی یورپ سے بہت دور پسماندہ علاقوں میں پائے گئے تھے۔ ان کو نہ تو ایک رشتے میں جوڑا جا سکتا تھا اور نہ تہذیب انسانی کی ارتقائی تاریخ مرتب کرنے میں ان سے مدد مل سکتی تھی۔ کم سے کم اس دور کے دانشوروں کا یہی خیال تھا۔
ساؤتولا کے دس سال بعد موسیو شیرون (cheron) نے شیوت (Chabot) (فرانس) کے غار کی تفصیلات شائع کیں، اس غار کا سراغ انہوں نے کئی سال پیشتر لگایا تھا، لیکن ان کا حشر بھی وہی ہوا جو ساؤتولا کا ہو چکا تھا۔
انیسویں صدی کے اختتام کو ابھی پانچ سال باقی تھے کہ ایک اور مصور غارلاموتھ (فرانس) کے مقام پر دریافت ہوا، وہ بھی اتفاقاً۔ ایک کاشت کار اپنے مویشیوں کے لیے ایک پہاڑی پناہ گاہ صاف کررہا تھا کہ اچانک غار کا دہانہ کھل گیا۔ گاؤں میں یہ خبر پھیلی تو چند نڈر لڑکوں نے غار میں اترنے کی ٹھانی۔ انہوں نے موم بتیاں لیں اور غار میں گھس گئے۔ واپس آئے تو انہوں نے بتایا کہ غار کی دیواروں پر جا بجا گھوڑے، بیل، بارہ سنگھے، گینڈے، بیسن اور بیسن سے بھی بڑے بڑے جانوروں کی تصویریں بنی ہیں۔
چند سال بعد اسی غار کے نواح میں ایک پورا نگار خانہ ملا جس میں دو سو دیواری تصویریں موجود تھیں۔ یہ فونت دے گام کا مشہور غار تھا جو ستمبر ۱۹۰۱ء میں دریافت ہوا۔ اسی دوران میں مشرقی اسپین کی کھلی چٹانوں پر رنگین تصویروں کے آثار دیکھے گئے۔ ان تصویروں میں غلبہ جانوروں کا تھا، مگر ہیئت میں یہ تصویریں التمیرا اور فونت دے گام سے مختلف تھیں لیکن کتابی علم کا غرور اور پندار کی بےاعتنائی کہیے کہ دانشوران روشن نشانیوں کو بھی جھٹلانے پر اصرار کرتے رہے۔ چنانچہ فرانس میں آثار قدیمہ کے ماہرین کی جو بین الاقوامی کانفرنس ہوئی اس میں ان جدید دریافتوں پربحث کرنے کی بھی اجازت نہ ملی۔
مگر حقیقت سے بہت دن تک چشم پوشی نہیں کی جا سکتی۔ اسے دیر سویر ماننا ہی پڑتا ہے۔ چنانچہ یکم اکتوبر ۱۹۰۲ء کو ماہروں کا ایک گروہ ایبے بروئیل کے اصرار پر پہلی بار التمیرا کے غار میں داخل ہوا۔ اس مہم کا ذکر کرتے ہوئے ایبے بروئیل لکھتا ہے کہ روشنی کے لئے ہمارے پاس فقط موم بتیاں تھیں مگر اس نیم تاریک ماحول میں بھی ہماری آنکھوں نے جو کچھ دیکھا اس نے ہمیں حیرت میں ڈال دیا۔ غار میں نمی تھی اس لیے سقفی تصویروں کا چربہ نہیں لیا جاسکا تھا کیوں کہ رنگ گیلا تھا اور کاغذ پر چپک جاتا تھا۔ چربہ لینے کے معنی ان تصویروں کو ضائع کرنے کے ہوتے لہٰذا ایبے بروئیل نے ان کو ہوبہو نقل کرنے کا بیڑہ اٹھایا۔ ’’میں روزانہ آٹھ گھنٹے زمین پر پیٹھ کے بل لیٹ کر ان تصویروں کو نقل کرتا جو چھت پر بنی ہوئی تھیں۔‘‘ ایبے بروئیل نے یہ کام تین ہفتے میں مکمل کر لیا مگر کوئی پبلشر التمیرا کے اس رنگین مرقعے کو چھاپنے پر آمادہ نہ ہوا۔ بالآخر ایبے بروئیل نے پرائیویٹ امداد سے التمیرا پر ایک مصور کتاب ۱۹۰۸ء میں شائع کی۔
ان حجری فن پاروں کی بڑی خوش قسمتی ہے کہ ان کے ایبے بروئیل جیسا دھن کا پکا اور لگن کا سچا فنکار مل گیا۔ ایبے بروئیل نے اپنی زندگی حجری فن پاروں کی نقل اور تفتیش و تحقیق کے لیے وقف کردی۔ چنانچہ آج ایبے بروئیل کی نقل کی ہوئی تصویروں کا اتنا بڑا ذخیرہ فرانس کے لیے وقف کردی۔ چنانچہ آج ایبے بروئیل کی نقل کی ہوئی تصویروں کا اتنا بڑا ذخیرہ فرانس میں موجود ہے کہ اس سے کئی دفتر تیار ہو سکتے ہیں۔
اب چراغ سے چراغ جلنے لگا۔ غاروں کی دریافت نے ایک مہم کی شکل اختیار کر لی۔ چنانچہ ہر سال ایک نہ ایک مصور غار کا سراغ ملتا۔ کبھی اسپین اور فرانس میں کبھی جرمنی اور اٹلی میں، کبھی روس اور چیکو سلواکیہ میں، کبھی سویڈن اور ناروے میں۔ آخری غار وہ ہے جو Baumed Dullins کے مقام پر مارچ ۱۹۵۱ء میں دریافت ہوا۔ اس سے پیشتر ایک نہایت اہم غار لاسکا میں ستمبر ۱۹۴۰ء میں دو لڑکوں نے دریافت کیا تھا۔
یوں تو قدیم حجری دور کے یہ فن پارے یورپ میں التمیرا سے جھیل بیکال تک اور فن ہاگن (ناروے) سے کیڈز (اسپین) تک بکھرے ہوئے ہیں مگر اسدور کے فن کا سب سے بڑا مرکز جنوب مغربی فرانس ہے۔ وہاں اب تک ستر غار دریافت ہو چکے ہیں۔ یہ غار دو منطقوں میں واقع ہیں۔ ایک وہ پہاڑی علاقہ ہے جو دریائے دور دون کی وادی میں ہے اور دوسرا فرانس کی جنوبی سرحد پر کوہِ پیر نیز میں۔ ان کے علاوہ اسپین کے شمال مغربی، مشرقی اور جنوبی علاقوں میں اس عہد کے کم وبیش چالیس غار اور کوہستانی پناہ گاہیں اب تک مل چکی ہیں۔
پھر چٹانوں پر اور کھوہوں کے اندر رنگین تصویروں اور کندہ نقوش کا وہ طویل سلسلہ ہے جو اسپین سے شروع ہوتا ہے۔ سمندر پار کر کے مراکش اور الجزائر سے گزرتا ہوا صحرائے اعظم کو عبور کرتا وسطی مشرقی اور جنوبی افریقہ میں اپنے نشان چھوڑتا کیپ ٹاؤن پر ختم ہوتا ہے۔ یہ نقوش اور تصویریں گو قدیم حجری دَور سے تعلق رکھتی ہیں مگر تکنیک اور ہیئت کے اعتبار سے یورپ کے ان فن پاروں سے مختلف ہیں جن کا ذکر ہم کر رہے ہیں اس لیے ان پر الگ بحث کی جائے گی۔ آسٹریلیا کی حجری دور کی تصویریں افریقی تصویروں کے علاوہ ہیں البتہ وہ تکنیک کے لحاظ سے آپس میں بڑی مشابہت رکھتی ہیں۔
سو ڈیڑھ سو سال پیشتر تک اس زمین کے بسنے والوں اور ان کے ماضی بعید کے بارے میں ہماری معلومات بہت ناقص اور محدود تھیں۔ عہد قدیم زمین کے سینے میں دفن تھا۔ ہمیں ان دفینوں کی خبر تھی اور نہ ان کی تلاش و تحقیق کا کوئی ذریعہ ہمارے پاس موجود تھا۔ ہماری آگہی کا سارا اثاثہ چند مذہبی کتابیں تھیں یا وہ لوک کہانیاں جو پرانی قوموں میں مدت سے رائج ہیں۔ انہیں روایتوں اور کتابوں کی روشنی میں انسان اور اس کے قدیم معاشرے کی ابتدا کا سراغ لگایا جاتا تھا۔ چنانچہ سترہویں صدی کے ایک پادری اشر نے انجیل کی کتاب پیدائش کی مدد سے یہ ثابت کیا تھا کہ ظہور آدم کا واقعہ ۴۰۰۴ قبل مسیح میں پیش آیا تھا اور دانایان مغرب نے پادری اُشر کی اس حساب دانی کو بہت سراہا تھا لیکن انیسویں صدی عیسوی میں جب سائنس نے ترقی کی اور نئے نئے علوم مثلاً علم الافلاک، علم الارض اور علم الحیوان کو فروغ ہوا تو ان پرانے عقیدوں کی صداقت خطرے میں پڑ گئی۔
سائنس دان زمین اور زندگی کی عمریں متعین کرنے لگے۔ ارتقائے حیات کے نظریے بنانے لگے۔ انہوں نے زمین کی تہوں سے بے شمار ایسی چیزیں برآمد کیں جن سے ان کے دعوؤں کی تصدیق ہوتی تھی۔ انہوں نے ان معدوم جانوروں کے ڈھانچے بھی ڈھونڈ نکالے جو لاکھوں برس گزرے زمین پر موجود تھے اور جب ۱۸۹۱ء میں پروفیسر دوبائے کو جاوا میں قدیم انسان کو چار لاکھ برس پرانی ایک کھوپڑی دستیاب ہوئی تو پادری اُشر کا حساب بالکل ہی غلط ثابت ہوگیا۔ اس کے بعد ۱۹۰۷ء میں ہائیڈل برگ (جرمنی) کے مقام پر آدمی کا ایک جبڑا ملا جو پانچ لاکھ برس پرانا تھا اور ۱۹۲۷ء میں پیکنگ (چین) کے نواح میں ایک غار میں آدمیوں کے ۴۵ ڈھانچے نکلے جو چارلاکھ برس پرانے تھے اور اب ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ انسان کم سے کم پندرہ لاکھ برس سے اس کرۂ ارض پر آباد ہے۔
محققین نے یہ بھی ثابت کیا کہ اس پندرہ لاکھ برس کے عرصے میں انسان کے رہن سہن، رسم و رواج، آلات و اوزار، عقائد اور عادات اور فکر و فن میں وقتاً فوقتاً نمایاں تبدیلیاں ہوتی رہی ہیں۔ انسانی تہذیب کوئی ساکت اور جامد شے نہیں ہے جو ایک مقام پر ٹھہری رہتی ہو بلکہ وہ ایک تغیر پذیر اور فعال حقیقت ہے جس نے اب تک ارتقا کے محتلف مدارج طے کیے ہیں اور یہ عمل بدستور جاری ہے۔ ان تبدیلیوں کا باعث وہ آلات و اوزار ہیں جن کو انسان اپنی سماجی ضرورتوں کے تحت خود بناتا رہتا ہے۔ در اصل تہذیب انسانی کے مختلف عہدوں کی شناخت انہیں آلات و اوزار سے ہوتی ہے چنانچہ ۱۸۳۶ء میں کرسٹین ٹامیسن (Christian Tomsen) نامی ایک فرانسیسی عالم نے آلات و اوزار کے فرق کے پیش نظر انسانی تہذیب کے تین بنیادی عہد متعین کیے تھے۔
(۱) پتھر کا زمانہ، جب کہ آلات و اوزار پتھر، لکڑی یا ہڈی کے ہوتے تھے۔
(۲) دھات کا زمانہ، جب کہ آلات و اوزار (تانبے اور ٹن کو ملا کر) کانسے کے ہوتے تھے۔
(۳) لوہے کا زمانہ، جو ایک ہزار قبل مسیح کے قریب شروع ہوا اور ہنوز جاری ہے۔
پتھر کا زمانہ اندازاً پانچ لاکھ قبل مسیح سے پانچ ہزار قبل مسیح تک پھیلا ہوا ہے۔ اس کو زمانہ قبل از تاریخ بھی کہتے ہیں۔
قدیم حجری دور کے جو آثار اب تک ملے ہیں ان سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ اس زمانے کا انسان نقاشی، مصوری، مجسمہ سازی اور موسیقی سے واقف تھا۔ یورپ کے غاروں میں حجری دور کے سب سے قدیم فن پارے ۳۰، ۴۰ ہزار برس پانے ہیں۔ ان کے عروج و کمال کا زمانہ مادی لانی کا دور کا وسطی عہد ہے جس کے آخر تک آتے آتے یہ فن ختم ہو گیا۔ کیوں کہ جن لوگوں نے یہ فن پارے تخلیق کیے تھے وہ معدوم ہوگئے یا ان علاقوں سے مستقل طور پر ہجرت کر کے کہیں اور آباد ہوگئے۔ قدیم حجری دور کا ماحول سخت برفانی تھا اسی لیے اس دور کو برفانی دور بھی کہتے ہیں۔ اس وقت یورپ کا تمام وسطی اور شمالی علاقہ (برطانیہ، جرمنی، پولینڈ، ناروے، سویڈن اور شمالی روس) برف کی چادروں سے ڈھکا ہوا ہوا تھا اور کسی جانور یا انسان کا وہاں گزر نہ تھا۔
البتہ اسپین، فرانس، اٹلی، جزیرہ نما بلقان اور دیائے وولگا کی وادی برف سے نسبتاً محفوظ تھی۔ سردیوں میں گو اس خطے میں بھی شدید برف باری ہوتی تھی اور سرد ہواؤں کے طوفان آتے تھے لیکن شمالی یورپ کے مقابلے میں وہاں کا موسم معتدل تھا۔ اس خطے میں اونچے اونچے درختوں کے جنگل تھے۔ پھل دار جھاڑیاں تھیں، دریا اور میدان تھے اور گھاس تھی لہٰذا میتمہ، بیسن، ریچھ، بالدار، گینڈے، بارہ سنگھے، جنگلی بیل، گھوڑے اور ہرن، غرض اس عہد کے تمام جانور اسی خطے میں رہتے تھے اور ا ن کے بڑے بڑے غول خوراک کی تلاش میں دور دور تک نکل جاتے تھے۔ اس وقت کے انسان کا دار و مدار انہیں جانوروں کے شکار پر تھا اس لیے انسانی قبیلے بھی جانوروں کے تعاقب میں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتے رہتے تھے۔
انسانی قبیلے خانہ بدوشی کی یہ زندگی غاروں یا کوہستانی پناہ گاہوں میں گزارتے تھے البتہ میدانی علاقوں میں وہ اپنے رہنے کے لیے زمین میں گڑھا کھود لیتے تھے اور گڑھے کے اوپر گھاس پھوس کی چھت ڈال لیتے تھے۔ ان میں وہ جھونپڑیوں کے آثار جنوب مشرقی یورپ میں ملے ہیں۔ جنگلی جانور ان کا کھانا پینا اور اوڑھنا بچھونا تھے۔ ان جانوروں کا گوشت وہ بطور غذا استعمال کرتے تھے۔ چربی سے چراغ جلاتے تھے۔ کھال اوڑھی اور بچھائی جاتی تھی۔ موٹی ہڈیوں سے شکار کے اوزار مثلاً نیزے کی انیاں اور تیروں کے پھل بنتے تھے اور پتلی ہڈیوں سے سینے کی سوئیاں، انتڑیوں اور نسوں سے تاگے اور رسی کا کام لیا جاتا تھا۔ یہ لوگ آگ کے استعمال سے واقف ہوچکے تھے اور شکار کو بھون کر کھاتے تھے۔
برفانی دور کے ان شکار پیشہ قبیلوں کے آلات اور اوزار لکڑکی، پتھر یا ہڈی کے ہوتے تھے۔ ہتھوڑے، کلہاڑیاں، نیزے، چاقو، سوئیاں وغیرہ سب انہیں چیزوں سے بنائی جاتی تھیں۔ شکار کے لیے بڑے بڑے بلم یا لاٹھیاں استعمال کی جاتی تھیں۔ ان کے سرے پر پتھریا ہڈی کی تیز اور نکیلی انی لگی ہوتی تھی۔ ان ہتھیاروں کی مار زیادہ دور تک نہیں تھی لہٰذا شکاریوں کو چھپ چھپا کر جانوروں کے بہت قریب تک جانا پڑتا تھا۔ مگر میمتھ، ہاتھی اور بیسن جیسے دیو پیکر جانوروں کو بھالوں یا لاٹھیوں سے مارنا ناممکن نہ تھا۔ ان کے قریب جانے میں جان کا خطرہ بھی تھا اس لیے ان کے بڑے جانوروں کو ہانکا کر کے کسی گڑھے یا کھڈ کی سمت لے جاتے تھے جب کار گڑھے میں گر پڑتا تھا تو اسے پتھر مار مار کر ہلاک کر دیتے تھے۔ فرانس میں ایسے کئی کھڈ ملے ہیں جن میں ہزاروں بیسنوں کی ہڈیاں ایک ہی جگہ پر موجود ہیں۔
لیسکا کے غار میں ایک مقام پر اس طرزِ شکار کی باقاعدہ منظر نگاری بھی کی گئی ہے۔ اس منظر میں چند جنگلی گھوڑے ایک گڑھے میں چھلانگ لگا رہے ہیں۔ گھوڑوں کے درمیان چٹان میں جو قدرتی نشیب موجود ہے، اس کو گڑھے کی علامت کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ چنانچہ تصویر کو دیکھنے سے یہی تاثر قائم ہوتا ہے کہ یہ عاجز اور پریشان گھوڑے واقعی گڑھے میں چھلانگ لگا رہے ہیں۔ بعض خطوں کے لوگ بھالے کو دور تک پھیکنے کے لیے نیزہ انداز آلے بھی بنانے لگے تھے۔ جنوبی اسپین اور افریقہ کے قدیم حجری انسان نے تیر کمان بھی بنالی تھی۔
برفانی دور کا انسان چھوٹے چھوٹے قبیلوں میں بٹا ہوا تھا۔ ہر قبیلہ در اصل ایک گھرانا ہوتا تھا جو اجتماعی زندگی گزارتا تھا۔ آلات و اوزار مشترکہ ہوتے تھے اور شکار میں جو کچھ ملتا تھا اسے بھی آپس میں بانٹ کر کھا لیتے تھے۔ قبیلے کے ہر فرد کا تحفظ پورے قبیلے کا فرض ہوتا تھا۔ قبیلے کے اندر تقسیم کار کا طریقہ رائج تھا۔ مرد شکار کرتے تھے، عورتیں ساگ پات، جنگلی پھل اور جڑیں وغیرہ اکھٹا کرتی تھیں۔ یہ چیزیں خوراک کے کام آتی تھیں۔ شکار میں بھی عورتیں ہانکے میں شریک ہوتی تھیں۔ حصول غذا کے علاوہ عورتوں کا کام بچوں کی دیکھ بھال کرنا، کپڑے سینا اور غار کو صاف ستھرا رکھنا ہوتا تھا۔ مردوں کا بنیادی پیشہ یوں تو فقط ایک ہی تھا یعنی شکار مگر ان میں بھی تقسیم کار پائی جاتی تھی۔
قبیلے کے ہر فرد کو پتھر کاٹنے، آلات واوزار بنانے، نشانہ لگانے اور شکار کرنے کا فن سیکھنا پڑتا تھا لیکن بعضوں کا نشانہ قدرتی طور پر اچھا ہوتا تھا۔ بعضوں میں صناع بننے کی صلاحیت دوسروں سے زیادہ ہوتی تھی۔ بعضوں کو مصوری یا کندہ کاری کا شوق ہوتا تھا۔ چنانچہ اسی ہنرمندی، صلاحیت اور شوق کے مطابق ان کے کاموں کی تقسیم بھی ہوتی تھیں اور وہ آہستہ آہستہ اپنے فن کے ماہربن جاتے تھے۔ مصوری سے ملا ہوا سحر کا فن تھا۔ یہ فن ان کی شکار پیشہ زندگی کا لازمی جز تھا اور اس کی اہمیت شکار سے کم نہ تھی۔ ساحر قبیلے کا روحانی پیشوا ہوتا تھا۔ وہ شکار کی تصویریں بناتا اور سحر کی رسمیں ادا کرتا تھا۔ اس کے عوض قبیلہ اس کی ضروریات زندگی کی کفالت کرتا تھا۔ خود شکاریوں کے بھی درجے ہوتے تھے۔ ان میں بعض ماہر شکاری ہوتے اور بعض بالکل مبتدی جن کو ہانکا کرنے کا کام سپرد کیا جاتا تھا۔ شکار کے بعد شکار کی تقسیم ہوتی تھی۔ گوشت عورتوں کو دیا جاتا تھا اور انتڑیاں، کھال، نسیں اور ہڈیاں الگ کرکے ان لوگوں میں تقسیم کردی جاتی تھیں، جو ان چیزوں سے سامان بناتے تھے۔
غاروں کے اندر جو مدفون ڈھانچے ملے ہیں ان سے ثابت ہوتا ہے کہ برفانی دور کا انسان اپنے مردوں کو باقاعدہ قبر میں دفن کرتا تھا۔ زمین سے پودوں اور بوٹوں کو اگتا دیکھ کر شاید اسے یہ خیال گزرا ہو کہ اگر مردے کو زمین میں دفن کر دیا جائے تو وہ بھی اوپر آجائے گا۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ قبر کی شکل عورت کے اسی عضو بدن سے بہت مشابہ ہوتی ہے جہاں سے بچہ نکلتا ہے۔ چنانچہ برفانی دور کا انسان اپنے مردے کے گھنٹوں کو پیٹ سے ملا دیتا تھا اور اس طرح اس کی پوزیشن قریب قریب وہی ہو جاتی تھی جو بچے کی ماں کے پیٹ میں ہوتی ہے۔ لاش کے سر کے نیچے پتھر کا تکیہ رکھ دیا جاتا تھا اور قریب ہی گوشت کے ٹکڑے، ہڈیاں اور شکاری آلات واوزار قرینے سے سجادیے جاتے تھے۔ تب قبر کا منھ بند کر کے اوپر پتھر کی سل رکھ دی جاتی تھی۔
یہ قبریں آباد غاروں میں بنائی جاتی تھیں۔ بعض قبریں تو چولہے کے بالکل پاس ہی ملی ہیں۔ شاید لوگوں کا عقیدہ ہوکہ آگ کی گرمی سے مردے کے ٹھنڈے جسم کو زندگی کی حرارت دوبارہ حاصل ہو جائے گی۔ حیات اور حرارت میں جو رشتہ ہے اس سے وہ لوگ پوری طرح آگاہ تو نہ تھے مگر اس رشتے کا ایک مبہم سا تصور ان میں ضرور موجود تھا۔ البتہ وہ حرارت کو زندگی کی علامت نہیں بلکہ اس کی علت سمجھتے تھے۔ گوان کے مردے کبھی نیند سے نہ جاگے اور چولہے کی گرمی نے کبھی زندگی کی حرارت نہ بخشی مگر رسم و رواج کی آہنی زنجیریں بڑی مشکل سے ٹوٹتی ہیں۔
قدیم حجری انسان ہنوز مذہب کے تصور سے آشنا نہ ہوا تھا۔ وہ کسی مافوق القدرت طاقت یا طاقتوں کو نہیں مانتا تھا اور نہ کسی دیوی، دیوتا کی پرستش کرتا تھا البتہ سحر پر اس کا عقیدہ بہت پختہ تھا۔ مذہب اور سحر میں بنیادی فرق یہ ہے کہ مذہب کا محرک قدرت کی اطاعت اور خوشنودی کا جذبہ ہے۔ اس کے برعکس سحر کا محرک تسخیر قدرت کا جذبہ ہے۔ سحر در اصل سائنس کی بالکل ابتدائی شکل تھی اسی لیے فریزر نے سحر کو ’’ساقط سائنس اور ناقص آرٹ‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔
علمائے آثار کا خیال ہے کہ برفانی دور کا انسان کوئی زبان ضرور بولتا تھا البتہ اب تک یہ نہیں معلوم ہوسکا کہ وہ زبان کیا تھی۔ آیا تمام قبیلے ایک ہی بولی بولتے تھے یا محتلف خطوں میں مختلف بولیاں بولی جاتی تھیں۔ غاروں میں جو آثار ملے ہیں ان سے یہ تو ثابت ہوتا ہے کہ قدیم انسان نقش گری، مصوری، مجسمہ سازی، موسیقی اور رقص کے فن سے آگاہ تھا لیکن ایسی کوئی شہادت اب تک نہیں ملی ہے، جس سے اس کی زبان کے بارے میں کوئی بات یقین سے کہی جا سکتی ہو۔
برفانی دور میں شرح اموات بہت زیادہ تھی، خصوصاً شیر خوار بچے بڑی تعداد میں فوت ہوجاتے تھے۔۔۔ بیماریوں میں سب سے عام بیماری گٹھیا کی تھی۔ لوگ طب اور جراحی کے فن سے واقف نہ تھے لیکن آدمیوں کے بعض ڈھانچے ایسے ملے ہیں جن کے پاؤں کی ہڈیوں پر عمل جراحی کے آثار نظر آتے ہیں۔ شاید ان شکاریوں کے پاؤں شکار میں ٹوٹے ہوں اور پھر ان کو کسی طرح جوڑا گیا ہو۔
یہ ہے ایک دھندلا سا خاکہ قدیم حجری دور کے انسان اور اس کے ماحول اور معاشرے کا، مگر جب ہم اس عہد کے غاروں کے رنگین نقش و نگار اور حسین مجسموں کو دیکھتے ہیں تو اس شکاری انسان کی صناعی، ہنر مندی، فنکاری اور ذہانت پر عقل حیران رہ جاتی ہے۔ سچ یہ ہے کہ قدیم حجری دور کے بعد آج تک دنیا کی کسی قوم نے کسی ملک اور کسی عہد میں بھی جنگلی جانوروں کی حسی کیفیات سے لبریز اتنی جاندار اور متحرک، اتنی خوش رنگ اور خوش آہنگ، اتنی موزوں اور متناسب تصویریں نہیں بنائیں۔ قدیم حجری دور کا انسان اپنے فن میں یکتا و مثال ہے کیوں کہ کسی دوسرے دور میں انسان کو جانوروں سے اتنا گہرا لگاؤ نہیں رہا اور نہ جانوروں کے کردار، مزاج، عادات و اطوار اور جسم کے مطالعے پر اس کی زندگی کا دار و مدار ہوا۔ قدیم حجری دور کے فنکار کی عظمت کا اس سے بڑھ کر ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے کہ دور جدید کے کتنے ہی عظیم فنکار اس کی نقالی پر ہی اپنی شہرت کا پرچم اڑاتے ہیں۔
آئیے اب قدیم حجری درو کے گمنام فنکاروں کے ایک زمین دوز نگار خانے کی سیر کریں۔ یہ نگار خانہ لاسکا کے غار میں ہے۔ اب تک جتنے غار دریافت ہوئے ہیں لاسکا کا غار ان سب میں ممتاز ہے۔ اس کی رنگین تصویروں پر موسمی تغیرات کا بہت کم اثر پڑا ہے۔ یہ تصویریں ابھی تک اپنی اصلی حالت پر ہیں اور ان کے رنگ کی آب و تاب میں کوئی فرق نہیں آیا ہے۔ لاسکا کا غار دریائے وزیر کے شمالی ساحل پر ایک گھنے جنگل کے اندر واقع ہے۔ وہاں کوئی آبادی نہیں ہے البتہ ندی کے دوسرے کنارے پر ایک چھوٹا سا فرانسیسی گاؤں ہے۔ التمیرا کی مانند یہ غار بھی اتفاقیہ طور پر دریافت ہوا اور وہ بھی ۱۹۴۰ء میں۔ ہوا یوں کہ نواحی مدرسے کے چار لڑکے جنگل میں کھیل رہے تھے۔ ان کا کتا ایک گڑھے میں جو کافی گہرا تھا، گر پڑا۔ لڑکے کتے کو نکالنے گئے تو انہیں غار کا دہانہ نظر آیا۔
تلاش و جستجو کی یہ عمر انہیں غار میں لے گئی مگر دہانہ اتنا تنگ تھا کہ لڑکوں کو پیٹ کے بل رینگنا پڑا۔ ملبے کے ڈھیر سے رینگتے ہوئے وہ داخل ہوئے تو داہنی جانب بیس فٹ کی گہرائی پر انہیں ایک بڑا سا ہال ملا جو بیضاوی شکل کا تھا۔ سو فٹ لمبا، ۳۳ فٹ چوڑا اور بیس فٹ اونچا۔ اس ہال کی چھت اور دیواریں بیلوں، گھوڑوں اور ہرنوں کی بڑی بڑی رنگین تصویروں سے آراستہ تھیں۔ لڑکوں نے یہ ماجرا اپنے استاد موسیو لاوالؔ سے بیان کیا، انہوں نے ایبے بروئیلؔ کو خبر دی۔ ایبے بروئیل ؔنے غار کا معائنہ کیا۔ اسے آری ناسی دور کا شاہکار قرار دیا اور اس طرح مہذب دنیا کو چالیس ہزار برس پرانا ایک نایاب دفینہ ہاتھ آیا۔
لاسکا کے ہال میں داخل ہوتے ہوئے پہلی تصویر ایک سیاہ گھوڑے کی نظر آتی ہے۔ ا س کے بعد ایک عجیب و غریب جانور بنا ہے جس کے دو متوازی سینگ آگے کو نکلے ہوئے ہیں۔ پیٹ پھولا ہے اور جسم پر گول گول نشان ہے۔ پھر چند بہت بڑے بڑے بیل ہیں جن میں سے چار اب تک محفوظ ہیں۔ ان کی لمبائی چار تا چھ گز ہے۔ وہ بیل جن کے خاکے سیاہ لکیروں سے بنے ہیں ایک دوسرے کے مقابل کھڑے ہیں اور ان کے درمیان خالی جگہ میں پانچ سرخ، زرد رنگ کے ہرن بنے ہیں۔ پہلے بیل کے اوپر لال رنگ کا ایک بڑا ساگھوڑا دوڑ رہا ہے۔ اس کے کھر اور ایال کالے ہیں۔ دوسرے بیل کے عقبی حصے میں لال رنگ کی ایک گائے بھی ہے جو چر رہی ہے۔ بیلوں کے درمیان بالائی حصے میں ایک اور لال گھوڑا ہے جس کی تھوتھنی دوسرے بیل کے سینگوں کے اندر ہے البتہ اس کے پاؤں غائب ہیں۔ بظاہر یہ چند جانوروں کی تصویریں ہیں مگر غور سے دیکھا جائے تو ان کی ایمائیت واضح ہو جاتی ہے اور ان میں ترتیب و آہنگ بھی نظر آنے لگتا ہے۔
بیل یوں تو بڑے مہیب اور قومی ہیکل ہیں لیکن مصور نے انہیں ساکت اور جامد بنا دیا ہے۔ وہ نہ حملہ کر سکتے ہیں اور نہ حرکت۔۔۔ وہ بالکل بے بس گم سم کھڑے ہیں، کیوں کہ وہ سحر زدہ ہیں۔ ان کے جسم پر بھالے کے چھوٹے چھوٹے نشان ہیں۔ اس کے برعکس گھوڑے بہت مگن دکھائی دیتے ہیں۔ وہ سرپٹ دوڑ رہے ہیں، اور بارہ سنگھوں کا نڈر پن دیکھو کہ وہ ان خون خوار بیلوں کے درمیان بڑی بے فکری سے کھڑے چہلیں کر رہے ہیں۔ رنگ زندگی کی علامت ہے، اسی لیے گھوڑے اور بارہ سنگھے رنگین ہیں اور بیلوں کو اس سے محروم کردیا گیا ہے۔ داہنی جانب والے بیل کی ناک سے تو خون بھی نکل رہا ہے۔
ہال کے عقبی حصے میں چھت بہت نیچی ہو جاتی ہے اور زمین کی ڈھلوان بڑھ جاتی ہے۔ وہاں سے ہم ایک تنگ راستے میں داخل ہوتے ہیں تو عین دہانے کی چھت پر ایک ہرن اور اس کے ہم جنس دوسرے جانوروں کی تصویریں نظر آتی ہیں۔ آگے بڑھیے تو چھت پر لال رنگ کی نہایت حسین گائیں اور مختلف نسلوں کے چھوٹے بڑے بہ کثرت گھوڑے بنے ہیں، گایوں کی نازک اور حساس تھوتھنیاں اور پتلی پتلی سڈول سینگیں اپنی ساخت میں بڑے ہال کے بیلوں سے مختلف ہیں، یہاں پہنچ کر راستہ اور تنگ ہوجاتا ہے مگر اس تنگی سے بھی فن کار نے فائدہ اٹھایا ہے۔ ایک دوڑتی ہوئی گائے کی تصویر اس انداز سے بنائی ہے کہ اس کے اگلے پاؤں دہانے کے ایک سرے پر ہیں اور پچھلے پاؤں دوسرے سرے پر۔ درمیان میں چھت کے نصف دائرے پر گائے کا پورا جسم پھیلا ہوا ہے اوریوں محسوس ہو رہا ہے کہ گویا یہ گائے خلا میں چھلانگ لگا رہی ہے اور آگے بڑھو تو ایک بے حد لمبی چوڑی گائے ایک جالی نما نشان کی جانب جست لگا رہی ہے۔ یہ نشان مستطیل ہے اور اس میں تین متوازی لکیریں بھی ہیں۔
یہ نشان یا تو ہم رنگ زمین جال کی علامت ہے جس میں گائے کو پھنسایا جا رہا ہے یا سحر کی۔ اور آگے بڑھو تو دو جنگلی گدھے ملتے ہیں۔ ان میں سے ایک حاملہ ہے۔ آخر میں چھت نیچی ہونے لگتی ہے اور موڑ آجاتا ہے۔ وہاں بھورے رنگ کا ایک گھوڑا ایک گڑھے میں گرتا نظر آتا ہے۔ اس کے چاروں پاؤں ہوا میں ہیں۔ یہاں چٹانوں میں جو قدرتی نشیب ہے، فنکار نے اس سے گڑھے کا کام لیا ہے۔
غار کے دوسرے گوشے میں پتھر پر کندہ کاری کے بہ کثرت نشان ملیں گے۔ یہ تصویریں ایک کے اوپر ایک کھدی ہیں، شاید یہ جگہ نوآموز فنکاروں کی مشق کے لئے تھی۔ یہاں کسی جگہ فقط کھربنے ہیں، کہیں دم، کہیں سر، کہیں کوہان مگر ان میں بڑی صفائی اور روانی پائی جاتی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے گویا یہ خاکے ہاتھ کی ایک ہی جنبش سے بنے ہیں۔ ایک اور گوشے میں پتوں والی ایک بیل کندہ ہے۔ یہ واحد شجری نمونہ ہے جو حجری دور کے کسی غار میں ملا ہے۔ ایک اور گوشے میں کئی گھوڑے اور گھوڑیاں ہیں۔ گھوڑیاں حاملہ ہیں اور ان کے جسم میں بھالے پیوست ہیں۔ ایک گھوڑے کے جسم میں سات بھالے چبھے ہوئے ہیں۔ ایک بہت بڑی سیاہ گائے بنی ہے جو حاملہ ہے۔ اس کے پاؤں کے پاس کئی مستطیل نشان ہیں۔ ایک جگہ دوبھورے رنگ کے بیسن پیٹھ جوڑے کھڑے ہیں۔۔۔ ایک چھت پر پانچ نہایت خوب صورت ہرن ندی میں تیرتے دکھائی دیتے ہیں، اس منظر کی لمبائی ۱۶ فٹ ہے۔
مگرلاسکا کا سب سے حیرت خیز منظر وہ ہے جو غار کے سب سے پوشیدہ، تاریک اور مشکل مقام پر بنایا گیا ہے۔ در اصل یہ بیس فٹ گہرا ایک کنواں ہے۔ کنوئیں کے ایک طرف کی دیوار کو کاٹ کر اس میں سیڑھیاں نکالی گئی ہیں۔ کنوئیں میں اترنے کا راستہ شاید یہی تھا۔ اس کنوئیں کی دیوار پر ایک آدمی کی اقلیدسی شکل سہلہوٹ میں بنی ہے۔
اس کا سر اور چونچ پرندے کا ہے البتہ نچلا دھڑ آدمی کا ہے۔ اس کے دونوں ہاتھ پھیلے ہوئے ہیں لیکن ہاتھوں میں انگلیاں فقط چار ہی ہیں۔ اس کا عضو تناسل اِستادہ ہے اور وہ زمین میں گرتا نظر آتا ہے یا مردہ پڑا ہے۔ اس کی پشت کی جانب ذرا ہٹ کر ایک چھڑی زمین میں گڑی ہے۔ اس چھڑی پر ایک چڑیا بیٹھی ہے۔ اس چڑیا کا سر آدمی کے سر سے بہت مشابہہ ہے۔ پاس ہی بھالا پھینکنے والا ایک اوزار پڑا ہے۔ اس اوزار سے زاویۂ قائمہ بناتا ہوا ایک بھال ہے جو ایک سیاہ رنگ کے بیسن کے پیٹ اور پیٹھ کے آر پار ہو گیا ہے، بیسن کی انتڑیاں باہر نکل آئی ہیں، اس کی دم اٹھی ہوئی ہےاور اس کی پیٹھ اور گردن کے بال کھڑے ہیں۔ اس کا سر حملے کے انداز میں جھکا ہوا ہے اور اس کی سینگوں کا رخ آدمی کی طرف ہے۔ اس کے پاؤں کی سختی اور اس کے جسم کا داخلی تناؤ بتا رہا ہے کہ وہ حملہ کرنے کے لیے بے چین ہے مگر حرکت سے معذور ہے۔ حملہ آور کے اندرونی تناؤ اور خارجی بے بسی کے درمیان جو تضاد ہے وہ اس تصویر سے نمایاں ہے۔ آدمی سے تھوڑے فاصلے پر ایک گینڈا بنا ہے جس کی پیٹھ آدمی کی طرف ہے اور وہ دور ہٹ رہا ہے۔ اس کے دو سینگ ہیں۔ یہ غار کا واحد گینڈا ہے۔ گینڈے اور آدمی کے درمیان چھ بڑے بڑے سیاہ دھبے بنے ہیں، دو دو کی قطار میں۔
اس غیرمعمولی منظر کی اب تک کوئی معقول تشریح نہیں ہوسکی ہے۔ بعض عالموں کا خیال ہے کہ یہ تصویر یادگاری ہے۔ اس کا تعلق کسی قبیلے کی زندگی کے کسی اہم واقعے سے ہے۔ شاید قبیلے کا سردار گینڈے یا بیسن کے شکار میں مارا گیا تھا۔ اس وقت اس نے چڑیے کا سوانگ بھر رکھا تھا کہ یہ طریقہ بہت عام تھا۔ (چنانچہ بہیلیے اور چڑی مار اب تک یہی کرتے ہیں) مصور نے اس حادثے کی منظر کشی کر کے مؤرخ کے فرائض انجام دیے ہیں لیکن اس تشریح سے ان چھ نقطوں کی توجیہ نہیں ہوتی جو آدمی اور گینڈے کے درمیان بڑے قاعدے سے لگائے گئے ہیں۔ نہ بیسن کی بے بسی کا سبب واضح ہوتا ہے اور نہ گینڈے کے فرار کی تشریح ہوتی ہے۔ یہ راز بھی نہیں کھلتا کہ اگر اس تصویر کا تعلق سحر کی کسی نہایت خفیہ رسم سے نہیں ہے تو پھر اس کو انتہائی پوشیدہ اور تاریک کنوئیں میں کیوں بنایا گیا تھا۔
لاسکا کے غار میں مختلف نسل کے گھوڑوں کی ۵۸ تصویریں ہیں۔ دو جنگلی گدھے ہیں، بیس بیل اور گائیں ہیں۔ ہرنوں کی تعداد بیلوں سے کم ہے، سات بیسن ہیں، چھ بلی کی نسل کے جانور ہیں، ایک گینڈا ہے، ایک بھیڑیا ہے، ایک ریچھ ہے، ایک یونی کارن ہے اور ایک چڑیا۔
یوں تو قدیمی حجری دور کا ہر مصور غار دیدنی ہے لیکن فنی اعتبار سے چھ غار خاص طور پر ذکر کے قابل ہیں۔ اول التمیرا کاغا، جو سب سے پہلے دریافت ہوا اور سب سے مشہور ہے۔ دوئم فونت واگام، سوئم تین بھائیوں کا غار، چہارم لاسیل، پنجم لے کومبریل اور ششم لاسکا۔
التمیرا کے غار میں جانوروں کی تقریباً ۱۷۰ تصویریں اب تک صحیح و سالم موجود ہیں۔ اس کے بڑے کمرے میں جو چار پانچ فٹ اونچا ہے چھت پر جو رنگین تصویریں بنی ہوئی ہیں، وہ دیواری فن مصوری کے قیمتی نوادر میں شمار ہوتی ہیں۔ یہ در اصل پندرہ گز لمبا ایک منظر ہے جس میں ایک ہرن اور بیس بیسنوں کی خاموش جنگ کا مرقع پیش کیا گیا ہے۔ فقط دو گھوڑے اور دو سور، ہرن کے حمایتی ہیں۔ مگر ہرن فتح یاب ہے۔ یہ تصویریں کندہ ہیں اور رنگ آمیز بھی۔ ان تصویروں میں حسنِ ترتیب کے علاوہ بڑا تنوع ہے۔ در اصل اس مرقعے میں ہر جانور کی انفرادی کیفیت کا اظہار کیا گیا ہے مگر مجموعی تاثر کا خون نہیں ہوتا بلکہ اس میں اور شدت پیدا ہو جاتی ہے۔ میکس رفیل نے اس کی تشریح یوں کی ہے کہ ہرن در اصل ایک قبیلے کی نمائندگی کرتا ہے، جس نے اپنے سحر کے زور سے دوسرے حریف جانوروں کو جو دشمن قبیلوں کی علامت ہیں، ہلاک کیا ہے۔ یہ منظر مثلث یا عمودی اصولِ توضیح پر نہیں بنا ہے بلکہ انسان کے کھلے ہوئے ہاتھ سے مشابہ ہے۔
لے کومبریل کا غارنو سوفٹ لمبا اور تین تا چھ فٹ چوڑا ہے۔ اس غار میں تقریباً تین سو تصویریں بنی ہیں جو مختلف جانوروں کی ہیں البتہ سوانگ بھرے ہوئے حیوان نما انسانوں کی تعداد یہاں سب سے زیادہ ہے۔ ایک آدمی کا سر تو ممیتھ کا ہے۔ ان کے علاوہ ایک موٹا آدمی ہے جو ایک عورت کا تعاقب کر رہا ہے۔ دیواروں پر جابجا انسانی شکلیں کھدی ہیں مگر ان کے سر جانوروں کے ہیں۔
تین بھائیوں کا غار فرانس کے ایک پرانے نواب کی زمین پر ہے۔ ۱۹۲۲ء میں نواب کے تین لڑکے تعطیل میں گھر آئے ہوئے تھے۔ قریب ہی دریائے دولپ بہتا ہے۔ یہ دریا قصبے سے تھوڑے فاصلے پر ایک غار میں غائب ہو جاتا ہے اور پھر ایک دوسرے مقام پر پہاڑ سے نمودار ہوتا ہے۔ تین بھائیوں نے ایک چھوٹی سی کشتی بنائی اور اس زمین دوز دریا کا سراغ لگانے نکلے۔ کشتی غار میں چلتی رہی اور ایک ایسے مقام پر پہنچی جو در اصل ایک جھیل تھی۔ وہاں چٹان پر انہیں سترہویں صدی کے چند آثار ملے، جس سے اندازہ ہوا کہ کچھ لوگ ان سے پیشتر بھی وہاں تک پہنچے تھے۔ وہ اور آگے بڑھے تو ایک سمت ایک سرنگ ملی جس کا دہانہ پتھر کی ایک باریک سی چادر سے ڈھک گیا تھا مگر اس پار کی روشنی چھن کر آرہی تھی۔
لڑکوں نے یہ چادر توڑ دی اور اب وہ ایک نگار خانے میں تھے۔ اس غار میں یوں تو دوسرے غاروں کی مانند کندہ کاری اور مصوری کے بہ کثرت نمونے موجود ہیں مگر وہاں کی چند اپنی خصوصیتیں بھی ہیں۔ مثلاً مٹی کے دو بیسن ایک چٹان سے لگے کھڑے ہیں۔ برفانی اُلو کا ایک جوڑا چٹان پر کھدا ہوا ہے۔ قریب ہی ان کے بچے کی شکل بھی بنی ہے لیکن سب سے اہم دریافت وہ جادو گر ہے، جس کے گرد لاتعداد جانوروں کا ہجوم نقش کیا گیا ہے۔ اس جادوگر کے کان بارہ سنگھے کے کانوں سے مشابہ ہیں اور کھڑے ہیں۔ اس کی داڑھی بہت لمبی ہے البتہ دہانہ ندارد ہے۔ اس کی کہنیاں اٹھی اور آپس میں ملی ہوئی ہیں اور دونوں ہاتھ ایک دوسرے کے قریب ہیں۔ انگلیاں ننھی ننھی اور پھیلی ہوئی ہیں۔ عضو تناسل بہت نمایاں ہے مگر استادہ نہیں ہے بلکہ بال دار دُم کے اندر پیوست ہے۔ ایبے بروئیل کی رائے میں اس کے سحر کا تعلق جانوروں کی افزائشِ نسل سے ہے۔
لاسیل (وادیِ دوردون) کے غار کی نمایاں خصوصیات عورتوں کے فرازی مجسمے ہیں جو چٹانوں پر ابھرے ہوئے ہیں۔ لاسیل کے غار میں عورتوں کے جوپانچ فرازی مجسمے ملے ہیں وہ اس فن کی سب سے پرانی یادگار ہیں۔ ان مجسموں میں نسوانی اندام بہت نمایاں ہیں۔ انہیں میں ڈیڑھ فٹ کا وہ مشہور فرازی مجسمہ بھی ہے، جو اب عجائب گھر کی زینت ہے۔ عورت کے اس مجسمے کے چاروں طرف پتھر کو کھود کر بہت گہرا کر دیا گیا ہے۔ اس کی وجہ سے مجسمے کا ابھار اور واضح ہوگیا ہے۔
یہ عورت سرسے پاؤں تک برہنہ ہے۔ اس کے کولھے بہت بھاری اور چوڑے ہیں۔ چھاتیاں بھی بہت بڑی ہیں اور لوکی کی مانند لٹکی ہوئی ہیں۔ رانوں کے درمیان کا ابھار بھی بہت واضح ہے۔ وہ بیسن کی ایک سینگ لیے ہوئے ہے جو ہلالی ہے۔ سینگ پرچند متوازی عمودی نشان کندہ ہیں۔ اس کا بایاں ہاتھ پیڑو پھر دھرا ہے۔ پیٹرو پھولا ہوا ہے جس سے حمل کا گمان ہوتا ہے۔ چہرے کی تفصیلات جان بوجھ کر نہیں بنائی گئی ہیں۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ صرف انہیں اعضا کی نمائش مقصود تھی جن کا تعلق افزائشِ نسل سے ہے۔ عورتوں کے چار اور مجسمے بھی ہیں جو اسی انداز کے ہیں۔ ان مجسموں پر جگہ جگہ سرخ رنگ بھی پایا گیا ہے۔ اس سے خیال ہوتا ہے کہ شاید یہ سرخ رنگے ہوئے تھے۔ سرخ رنگ حجری دور میں زندگی کا علامت تھا۔
گار گاس کا غار اس لحاظ سے اہم ہے کہ وہاں ہاتھ کے چھاپے بہ کثرت ملے ہیں۔ یہ چھاپے الگ الگ بھی ہیں اور اکٹھا بھی۔ ایک چٹان پر تو ایک ہی جگہ ڈیڑھ سو چھاپے لگے ہیں۔ ان میں ایک کمسن بچے کا چھوٹا سا ہاتھ بھی ہے۔ یہ چھاپے سرخ بھی ہیں اور سیاہ بھی۔ بعض جگہوں پر ہاتھ کو رنگ میں ڈبو کر دیوار پر چھاپہ لگا دیا گیا ہے اور بعض جگہوں پر ہاتھ کے سلہوٹ بنے ہیں، یعنی انگلیوں کو دیوار پر پھیلا دیا گیا ہے اور پھر ان کے گرد رنگ پھیر دیا گیا ہے۔ سب سے حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اکثر چھاپوں میں چار انگلیاں نظر آتی ہیں مگر انگوٹھا غائب ہے اور انگلیوں کے سرے کے پور کٹے ہوئے مگر بعض پنجے پورے بھی ہیں۔ ان چھاپوں میں بائیں ہاتھ کی کثرت ہے اور یہ قدرتی بات ہے، کیوں کہ دائیں ہاتھ سے رنگ آمیزی کی جاتی تھی۔
قدیم حجری فن میں ہاتھ کے نشان کی جو اہمیت اور خصوصیت ہے اس پر ہم آگے چل بحث کریں گے۔ یہاں فقط اتنا بتا دینا کافی ہے کہ حجری فن کے ہیئتی ارتقا کی سب سے ابتدائی شکل ہاتھ کے یہی چھاپے ہیں۔ اسی غار میں عورت کے جنسی عضو کی شکل بھی الگ کندہ ہے اور ایک مرغابی کو پانی میں تیرتا دکھایا گیا ہے۔
ابتدا میں عام خیال یہی تھا کہ قدیم حجری دور میں فنکار اپنی تصویریں اور مجسمے فقط غار کے عمیق ترین گوشوں میں بناتے تھے یا نہایت دشوار گزار مقامات پر جو تنگ و تاریک ہوتے تھے۔ التمیرا اور اس قبیل کے غاروں سے یہی نتیجہ نکلتا ہے مگر جنوبی اور مشرقی اسپین میں جو دریافتیں ہوئیں ان سے اس خیال کی تردید ہوگئی کیوں کہ ان خطوں میں بکثرت رنگین تصویریں زمین کے اوپر چٹانوں پر منقوش یا کندہ ملی ہیں۔ شاید اس عہد کے فنکاروں نے تصویریں غاروں کے اندر بھی بنائیں اور کھلی ہوئی چٹانوں پر بھی۔ جو تصویریں کھلی جگہوں پر تھیں وہ دھوپ، ہوا اور بارش کے سبب ضائع ہوگئیں اور جو غاروں میں تھیں وہ موسمی اثرات سے محفوظ رہیں۔ یہ بھی قرین قیاس ہے کہ جو قبیلے غاروں کے اندر رہتے تھے اور جن کی بود و باش نسبتاً سخت ماحول میں تھی انہوں نے غاروں میں تصویریں بنائیں اور جنوبی اسپین اور افریقہ کے لوگوں نے جو دوسری نسل سے تعلق رکھتے تھے اور نسبتاً گرم ماحول میں رہتے تھے، کھلی ہوئی چٹانوں کو ترجیح دی۔
سطح زمین سے اوپر کی حجری تصویروں کو بناتے وقت شاید مصنوعی روشنی کی ضرورت نہ پڑی ہو لیکن گہرے غاروں اور تاریک سرنگوں میں تو دن کے وقت بھی ہاتھ کو ہاتھ نہیں سوچھتا چہ جائیکہ تصویر کشی اور کندہ کاری کرنا۔ اس لیے روشنی کا انتظام ضروری تھا۔ قدیم حجری دور میں روشنی کے لئے چراغ اور مشعل استعمال ہوتے تھے۔ ان میں چربی جلائی جاتی تھی۔ غاروں میں بہ کثرت ایسی چیزیں ملی ہیں جن سے چراغ یا مشعل کا کام لیا جاتا تھا۔ کئی مقامات پر پتھر کے ایسے دیے بھی دست یاب ہوئے ہیں جن میں چربی کے ٹکڑے اور جلی ہوئی بتیوں کے گل موجود تھے۔ اسی طرح جلی ہوئی لکڑی کے ٹکڑے بھی افراط سے ملے ہیں۔
قدیم حجری دور کے فنکار تین بنیادی رنگ استعمال کرتے تھے۔ سرخ، زرد اور سیاہ۔ نیلے اور سبز رنگ کے آثار کہیں نہیں ملتے۔ شاید یہ لوگ نیلا اور سبز رنگ نہیں بنا سکتے تھے۔ یہ رنگ چونکہ جلد خراب ہو جاتے ہیں اس لیے یہ بھی ممکن ہے کہ ہزاروں سال بعد اب یہ اڑ چکے ہوں۔ یہ رنگ اشیا سے بنائے جاتے تھے نہ کہ نباتات سے۔ کالے رنگ کے لیے تو لکڑی کا کوئلہ یا چراغ کا دھواں موجود ہی تھا البتہ سرخ اور زرد رنگ مینگینز، سیندور اور لوہے کے آکسائڈ سے بنائے جاتے تھے۔ یہ معدنی اشیا خود غاروں میں یا نواح میں افراط سے پائی جاتی تھیں۔ ان معدنی رنگوں کے باریک سفوف کو جانور کے خون، چربی اور انڈے کی سفیدی میں گوندھ لیا جاتا تھا۔ موقلم کی جگہ ابتدا میں انگلیوں سے کام لیا گیا، پھر درخت کی پتلی پتلی شاخوں یا پرندوں کے پرکو کچل کر ان سے قاز بنائے گئے۔ زیادہ باریک کام کے لیے ہڈی کی پتلی پتلی تیلیوں کو پتھر پر رگڑ کر نوک نکال لیتے تھے۔ ان رنگوں کو پتھر کی تھالیوں میں رکھا جاتا تھا۔ چنانچہ غاروں میں رنگوں کی تھالیاں اور برش کثرت سے ملے ہیں۔ کندہ کاری پتھر کے نکیلے ٹکڑوں سے کی جاتی تھی۔
یہ فن پارے ایک سال یا ایک صدی کے اندر نہیں بنائے گئے بلکہ وہ انسان کی ہزاروں سال کی محنت کا ثمر ہیں، شکاریوں کے قافلے آتے، چند مہینے یا چند سال ایک مقام پر رہتے۔ اپنی ضرورت، ذوق اور صلاحیت کے مطابق غاروں میں نقش ونگار بناتے اور پھر شکار کے تعاقب میں کسی اور سمت راہ لیتے۔ برسوں بعد وہاں کسی دوسرے قبیلے کا گزر ہوتا تو وہ ان غاروں کو دوبارہ روشن کرتا اور اپنی ضرورت اور صلاحیت کے مطابق تصویریں بناتا۔ کبھی پرانی تصویروں سے ہٹ کر کبھی ان پہلو میں، اور کبھی انہیں کے اوپر۔
چنانچہ بعض غاروں میں تصویروں کے خط اور رنگ آپس میں اس طرح گڈمڈ ہوگئے ہیں کہ ان کو الگ کرنا بہت مشکل ہے۔ اس گڈمڈ کی وجہ سے تصویروں کو فنی نقصان ضرور پہنچا ہے لیکن ماہرین آثار کے لیے اب ان تصویروں کے مختلف عہد اور ادوار متعین کرنا آسان ہو گیا ہے۔ مثلاً ایبے بروئیل اور اوپرمیئر نے فقط فونت دے گام کے غار میں سات مختلف ادوار کا سراغ لگایا ہے۔ بعض غاروں میں تو تیرہ چودہ ادوار کے آثار موجود ہیں لیکن ہنوز یہ بات یقین سے نہیں کہی جا سکتی کہ ان ادوار میں ایک سو سال کا فرق ہے یا ایک ہزار سال کا۔ بعض اوقات یوں بھی ہوا کہ ایک قبیلے نے چند تصویریں بنائیں اور رخصت ہوگیا اور جب دوسرا قبیلہ آیا تو اس نے ان تصویروں کو جوں کا توں رہنے دیا البتہ چند تصویروں کا اضافہ کرکے ایک نیا منظر ترتیب دے دیا۔
بہر حال قدیم حجری دور کے اس فن نے ارتقا کی خواہ کتنی منزلیں کیوں نہ طے کی ہوں اور وقت اور قبیلوں کے فرق کے سبب سے خواہ اس فن میں کتنی تبدیلیاں کیوں نہ آئی ہوں مگر ان کے فن کی غرض وغایت اور نوعیت اور خصوصیت میں کبھی فرق نہیں آیا اور نہ اس کی بنیادی ہیئت بدلی۔ ہردورمیں آرٹ کا محور، مرکز اور محرک شکاری جانور ہی رہا، وہ جانور جس کی افزائشِ نسل پر اور جس کے شکار پر خود انسان کی پوری زندگی کا دارومدار تھا۔ اس پورے عہد میں جانورں کی جو شکلیں بنائی گئیں وہ اصل کے عین مطابق ہیں۔ بالکل سچی اور نمائندہ تصویریں۔ یہ دوسری بات ہے کہ ابتدائی زمانے میں ناتجربہ کاری کے باعث یہ تصویریں نسبتاً بھونڈی اور ناقص تھیں۔
ان تصویروں کی عمر کی بابت اندازہ لگایا گیا ہے کہ ان میں سب سے قدیم وہ ہیں جو کم سے کم چالیس ہزار سال پرانی ہیں اور جدید سے جدید نقش و نگار بھی دس ہزار برس پرانے ضرور ہیں۔
قدیم حجری دور میں مصوری، کندہ کاری اور مجسمہ سازی کے فن کی ابتدا کیسے ہوئی۔ انسان نے سب سے پہلا نقش کیوں اور کیوں کر بنایا۔ وہ کون سے محرکات تھے جنہوں نے اسے اس ایجاد پر آمادہ کیا۔ کیا وہ پیدائشی فنکار تھا اور نقش گری اس کی فطرت اور جبلت میں داخل تھی یا خارجی حالات، اثرات نے اس میں یہ شعور پیدا کیا۔ کیا کسی وجدانی اور غیر شعوری جذبے نے اس میں تصویر کشی کی امنگ پیدا کی اور اس نے دیواروں پر خط اور رنگ کے حسین مرقعے بنانے شروع کردیے یا اس تخلیق ِ فن کے اسباب مادی اور تاریخی ہیں؟ مگر ان سوالوں کے جواب کیوں نہ خود فنکاروں سے پوچھیں۔ گو ان کی زبانیں مدت گزری بند ہوچکی ہیں اور ان کے موقلم بھی ہزاروں برس سے سوکھے پڑے ہیں لیکن شاید ان کی تصویریں اور ان کے نقوش ہماری کچھ مدد کرسکیں۔
غاروں کے نقش و نگار کا بغور مطالعہ کرنے سے پیشتر ہمیں ایک نہایت اہم نکتہ ذہن نشیں کرلینا چاہئے۔ وہ یہ ہے کہ مصوری کے فن کو ایجاد کرتے وقت انسان کو قطعاً یہ احساس نہ تھا کہ وہ کسی فن کی داغ بیل ڈال رہا ہے۔ ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ نے کلچر کی بحث میں ایک جگہ لکھا ہے کہ کلچر بسا اوقات وہ لوگ تخلیق کرتے ہیں جن کو خبر بھی نہیں ہوتی کہ وہ کلچر تخلیق کر رہے ہیں۔ یہی حال قدیم حجری دور کے انسان کا تھا۔ وہ نہ تو فن کی اصطلاح سے واقف تھا اور نہ فن کی خاطر فن پیدا کر رہا تھا۔
آئیے، اب ایک غار میں چلیں۔ اس غار میں آپ کو چٹانوں پر چند نشان کھدے ہوئے نظر آئیں گے۔ یہ نشان آدمیوں نے نہیں بنائے بلکہ برفانی عہد کے بڑے بڑے ریچھوں نے اپنے ناخنوں سے کھودے تھے۔ ریچھ قدیم حجری دور کے انسانوں کا ہم عصر تھا اور آدمیوں کی مانند غاروں میں رہتا تھا۔ وہ اپنے سامنے کے پنجوں کو تیز یا صاف کرنے کی خاطر چٹان پر رگڑتا تھا۔ اس کے پنجے اتنے مضبوط اور اس کے دانت اتنے تیز تھے کہ ان کو رگڑنے سے پتھر پر نشان پڑ جاتے تھے۔ اب ذرا ان نشانوں کا مقابلہ ان نشانوں سے کیجئے جو التمیرا کے غار میں انسان نے اپنی انگلیوں سے دیوار کی مٹی پر کھینچے ہیں۔ ریچھ نے ناخنوں سے جو کیاریاں بنائی ہیں اور انسان نے جو جلیبیاں اور سویّاں بنائی ہیں ان میں بڑی مشابہت پائی جاتی ہے۔ اسی بنا پر علمائے آثار قدیمہ کا خیال ہے کہ قدیم انسان نے ریچھ کی دیکھا دیکھی یہ نشان بنائے تھے۔
مگر انسان نے ریچھ کی نقل کیوں کی!
اس لیے اس نے ریچھ میں اور اپنے آپ میں بہت سی باتیں مشترک باتیں پائیں۔ ریچھ انسان کی مانند غار میں رہتا تھا۔ اس کے جسم پر بھی بڑے بڑے بال تھے۔ وہ اپنے سامنے کے پاؤں سے قریب قریب وہی کام لیتا تھا جو انسان اپنے ہاتھوں سے لیتا تھا۔ شاید اس کے بڑے بڑے ناخنوں والے بال دار ہاتھ ریچھ کے ناخن اور پنجوں سے ملتے جلتے ہوں۔ ریچھ انسان کی مانند پاؤں پر کھڑا ہو جاتا تھا۔ انسان ہی کی طرح درختوں پر چڑھ کر پھل توڑتا تھا اور جانوروں کا شکار کرتا تھا مگر بہت سی باتوں میں وہ انسان سے افضل تھا۔ مثلاً وہ انسان سے کہیں زیادہ طاقتور تھا۔ ریچھ کی جنسی قوت کی جو حکایتیں سنی جاتی ہیں ممکن ہے قدیم انسان نے اس قوت کا مشاہدہ بھی کیا ہو، شاید قدیم انسان نے ریچھ کی جسمانی طاقت کا مرکز اس کے ہاتھوں اور ناخنوں کو سمجھا ہو اور یہ سوچا ہو کہ اگر میں بھی پتھر پر انگلیوں سے نشان بناؤں تو میرے ہاتھوں میں بھی وہی طاقت آجائے گی جو ریچھ میں ہے چناں چہ اوبر میئر اوبر میسر کہتا ہے،
’’ان جھجکے جھجکے سے ناقص نشانوں کی ابتدا بلاشبہ خارجی اثرات سے ہوئی۔ اس کے لیے ہمیں کم سے کم مغربی یورپ میں غار میں رہنے والے ریچھ کا ممنون ہونا چاہئے، مگر اس سے یہ بھی ثابت ہوجاتا ہے کہ انسان تحت الشعور میں فنی رجحان پہلے سے موجود تھا۔ ریچھ کے کھرچے ہوئے نشانوں کی بدولت انسان نے جو ابتدائی کوششیں کیں انہیں ہم آرٹ کانام دیں یا نہ دیں لیکن یہ طے شدہ امر ہے کہ قدیم انسان میں اگر ایسی صلاحیت ابتداہی سے ودیعت نہ کی گئی ہوتی جو فنی اثر قبول کرلے اور پھر خود فن کی تخلیق کرسکے تو وہ کبھی فنکار نہیں بن سکتا۔‘‘
غرض کہ کندہ کاری کی سب سے پہلی مشق جلیبیوں اور سویوں کے سے وہ لہراتے اور بل کھاتے نشان تھے جو انسان نے ریچھ کی دیکھا دیکھی غار کی دیواروں پر جمی ہوئی گیلی مٹی پراپنی انگلیوں سے کھینچے۔ ان نشانوں میں بڑی حرکت اور روانی ہے۔ مگر انسان ریچھ کی اس نقالی سے بہت جلد آزاد ہوگیا۔ اس کا تشکیلی اور تصویری شعور ابھر آیا اور وہ ان سویوں جیسی لکیروں ہی سے جانوروں اور عورتوں کے خاکے بنانے لگا۔ اس نے انگلیوں کا استعمال ترک کردیا اور ان خاکوں کے لیے دوشاخی، سہ شاخی سینگ یا لکڑی کے ٹکڑوں سے کام لینے لگا۔ گیلی مٹی میں کھدے ہوئے یہ خاکے چونکہ بہت جلد خراب ہو جاتے تھے اس لیے اس نے پتھر کے نکیلے اور تیز ٹکڑوں کی مدد سے یہ خاکے چٹانوں میں کھودنے شروع کردیے۔
پروفیسر جوہانز مارنگز کا خیال ہے کہ رنگین تصویروں کی ابتدا کا زمانہ بھی وہی ہے جو کندہ کاری کا ہے اور فن مصوری کے عہد ترقی کی تاریخ بھی غاروں کے بغور مطالعے سے بآسانی مرتب ہو سکتی ہے۔ پروفیسر کی رائے میں سب سے پرانی تصویریں وہ ہاتھ ہیں جو برفانی انسان نے دیواروں پر بنائے۔ ہاتھوں کے یہ چھاپے ابتدائی عہد سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ چھاپے سل ہوٹ ہوتے تھے۔ انسان اپنا ہاتھ گیلی چٹان پر رکھ دیتا تھا۔ انگلیوں کو پھیلا دیتا تھا اور پھر ایک نالی کے ذریعے رنگین سفوف کو انگلیوں کے گرد پھونکتا تھا یا رنگ کو پانی میں گھول کر ہاتھ میں ڈبو دیا جاتا تھا۔ پھر اس کی چھاپ دیوار پر لگادی جاتی تھی۔ ایسے سرخ، بادامی، اودے، زرد، سیاہ اور سفید چھاپے متعدد غاروں میں ملے ہیں۔ آہستہ آہستہ یہ ہاتھ غائب ہوجاتے ہیں اور ان کی جگہ رنگین لہریے لے لیتے ہیں۔ یہ لہریے انگلیوں کو رنگ میں ڈبوکر بنائے جاتے تھے۔ ابتدا میں بھری مٹی پر انگلیوں سے جو بے رنگ نشان کھینچے جاتے تھے، ان کے مقابلے میں یہ رنگین نشان زیادہ جاذبِ نظر ہوتے ہوں گے اور غار کے اندھیرے میں سرخ اور زرد رنگوں کی چمک کا اثر ابتدائی انسان کے جذبات اور احساسات پر بہت شدید ہوتا ہوگا۔ ان لہریوں کے درمیان جانوروں کی ابتدائی شکلیں بھی ملنے لگتی ہیں۔
شروع میں جانوروں کی یہ شکلیں در اصل خاکے ہیں جن کے لیے دو یا تین متوازی لکیروں سے کام لیا گیا ہے۔ تب کہیں واحد لکیروں کی باری آئی ہے۔ یہ واحد لکیریں بھی پہلے موٹی ہیں، پھر پھیکی پھیکی سی جیسے کسی نے انہیں سوختے سے خشک کیا ہو اور تب وہ باریک ہوتی گئی ہیں۔ خاکوں میں رنگ بھرنے کا دور بہت بعد میں آیا۔ ابتدا میں جانوروں کے خاکے بھونڈے ہوتے تھے۔ ان کے اعضا اکڑے اکڑے سے اور سخت ہوتے تھے اور جسم کے وہی حصے بنائے جاتے تھے جو قریب اور سامنے سے نظر آتے ہیں مگر کچھ عرصے کے بعد خاکوں میں روانی آجاتی ہے اور وہ متحرک نظر آنے لگتے ہیں۔
قدیم حجری دور میں فن مصوری کا آغاز ہاتھ کے چھاپوں سے کیوں ہوا، جانوروں کی تصویروں سے کیوں نہیں ہوا؟ اس کی سب سے معقول توجیہ میکس رفیل نے کی ہے۔
’’در اصل جو چیزیں انسان کو دوسرے جانوروں سے ممتاز کرتی ہے وہ اس کے ہاتھ ہیں۔ اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ انسان کی بقا اور ترقی میں دماغ اور زبان کی اہمیت کم ہے، مگر جس عضوِ بدن کی بدولت وہ دوسرے جانوروں سے الگ ہوا، جو اس کا سب سے کارآمد اور مؤثر حربہ اور اوزار ثابت ہوا اور جس کی مدد سے اس نے تسخیر قدرت کی ابتدا کی، وہ اس کے ہاتھ ہی تھے۔‘‘
دانشوروں میں اب تک اس بات پر شدید اختلاف پایا جاتا ہے کہ فکر اور گویائی کی طاقت فقط انسان کا خاصہ ہے یا دوسرے جانور بھی اپنے اپنے انداز میں سوچتے اور بولتے ہیں۔ بعض دانشور کہتے ہیں کہ دماغ اور زبان انسان کا اجارہ ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ نہیں، دوسرے جانوروں کے پاس بھی دماغ اور زبان موجود ہے اور ثبوت میں یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ جس چیز کو ہم سریا بھیجا کہتے ہیں تمام جانوروں کے پاس ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ ہم ان کو قوتِ فکر سے محروم قرار دیں۔ اسی طرح وہ اعضا بھی جو کلام کے لیے ضروری ہیں یعنی زبان، دانت، حلق، منھ اور سر، اکثر جانوروں میں پائے جاتے ہیں۔ چنانچہ اکثر جانور منھ سے طرح طرح کی آوازیں بھی نکالتے ہیں۔ لہٰذا فقط اس بنا پر کہ ہم ان آوازوں کا مفہوم نہیں سمجھ سکتے، ہم ان کو بے زبان کہنے کا حق نہیں رکھتے۔ مگر اس بات پر تمام دانشوروں کا اتفاق ہے کہ جس عضو بدن کو ہم ہاتھ کہتے ہیں، وہ فقط انسان کو نصیب ہے اور اس عضو سے جو کام انسان لیتا ہے، دوسرا کوئی جانور اپنے کسی عضو سے کام نہیں لے سکتا۔
در اصل انہیں ہاتھوں نے انسان کو صحیح معنی میں انسان بنایا۔ ان ہاتھوں کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ ان کے ذریعے انسان نے تخلیق کا عمل شروع کیا۔ اس نے ان کی مدد سے نئی چیزیں پیدا کیں۔ دنیا کا کوئی دوسرا جانور مظاہر قدرت میں کوئی تبدیلی نہیں کر سکتا بلکہ اس کی اطاعت پر مجبور ہے کیونکہ وہ خود کوئی چیز پیدا کرنے اور بنانے پر قادر نہیں ہے۔ اس کے بر عکس انسان پیدا آور جانور ہے۔ اس نے پتھر کے ٹکڑوں کو رگڑ کر آگ پیدا کی ہے، آلات و اوزار بنائے ہیں، پوشاک تیار کی ہے، مٹی کے برتن گڑھے ہیں، زمین کھود کر نئی فصلیں اگائی ہیں، اونچی اونچی عمارتیں کھڑی کی ہیں، تحریر کا فن ایجاد کیا ہے، کارخانے اور فیکٹریاں تعمیر کی ہیں اور برقی اور ایٹمی طاقت پیدا کی ہے اور یہ ساری تخلیقیں اور ایجادیں براہ راست ہاتھوں سے ہوئی ہیں۔
ہزاروں سال پیشتر کا ابتدائی انسان دماغ کے پراسرار اور پوشید عمل سے واقف نہیں ہوسکتا تھا اور نہ وہ ذہن اور ہاتھوں کے تخلیقی عمل میں جو رشتہ ہے اس کا ادراک کر سکتا تھا البتہ وہ ہاتھوں کی معجز نمائیوں کو دیکھ سکتا تھا، محسوس کر سکتا تھا، اس کا سارا سرمایۂ حیات واقعی یہی ہاتھ تھے۔ پھر وہ اس دولت آفریں عضو بدن کو سحر سے معمور کیوں نہ خیال کرتا۔
ہاتھ اس کے نزدیک جسمانی طاقت کی علامت تھے، اس لیے بڑی اہمیت رکھتے تھے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ وہ ہاتھوں ہی سے شکار کرتا تھا۔ چناں چہ اس کی منطق یہ تھی کہ اگر کسی ترکیب سے ہاتھوں کی تعداد بڑھائی جا سکے تو شکار کی تعداد بھی بڑھ سکتی ہے۔ چھاپے چونکہ ہاتھ کا ہو بہو عکس ہوتے تھے، اس لیےقدیم انسان کے نزدیک ان میں ہاتھوں کی تاثیر کا ہونا لازمی تھا۔ وہ چھاپوں کو بے جان تصویریں نہیں سمجھتا، کیوں کہ جاندار اور بے جان کے فرق سے ہنوز اس کا ذہن نا آشنا تھا۔
کوئی فن ایک دن میں نہیں آتا بلکہ اس کو سیکھنے کے لیے پیہم مشق کرنی پڑتی ہے۔ آج کل تو خیر حصول فن کے لیے درس گاہیں موجود ہیں جہاں کہنہ مشق استاد اپنے نوآموز شاگردوں کو فن کی تعلیم دیتے ہیں مگر کیا اب سے چالیس ہزار سال پیشتر بھی استاد اور مدرسے ہوتے تھے؟ شواہد کہتے ہیں کہ استاد شاگرد کا رشتہ اس وقت بھی موجود تھا اور قبیلے کے نوجوانوں کو مصوری اور کندہ کاری کا فن باقاعدہ سکھایا جاتا تھا۔ مثلاً لیموئیل کے غار میں ایک ہی مقام پر پتھر کی ۱۳۷چھوٹی چھوٹی تختیاں ملی ہیں جن پر نقاشی کی مشق کی گئی ہے۔ ان میں بعض خاکے بہت اچھے ہیں اور بعض بے حد ناقص۔ ان پر جابجا کسی استاد کی اصلاح بھی نظر آتی ہے۔ اسی طرح پاریالو (اسپین) کے غار میں پتھر کی ۱۴۳۰ تختیاں ملی ہیں جن پر تصویریں کھدی یا بنی ہیں۔
پتھر کا ایک ایسا ٹکڑا بھی ملا ہے جو تصویروں سے لپا ہوا ہے۔ الٹی سیدھی، آڑی ترچھی، اوپر تلے، پشت پر غرض کہ سیکھنے والے نے اس ایک ٹکڑے پر لاتعداد شکلوں کی مشق کی ہے، ہونہار شاگرد تعلیم سے فارغ ہو کر خود استاد بن جاتے تھے۔ سحر کی رسوم بھی یہی فنکار ادا کرتے تھے، ابتدا میں ان ساحروں اور فنکاروں کی حیثیت قبیلے کے دوسرے افراد سے مختلف نہ تھی اور نہ انہیں خاص کر رعایتیں حاصل تھیں مگر فن کے تقاضے اور ادائیگی رسوم کی ضرورتیں بڑھیں تو ساحروں کو شکار یعنی حصولِ غذا کے فرائض سے مستثنیٰ کردیا گیا۔ وہ اپنے سحر اور فن کے ذریعے قبیلے کو شکار حاصل کرنے میں مدد دیتے تھے اور قبیلہ اس کے عوض ان کو غذا فراہم کرتا تھا۔
غاروں کے نقش و نگار خود پکار پکار کہہ رہے ہیں کہ ہم اناڑی ہاتھوں کی تخلیق نہیں ہیں بلکہ ہمیں بڑے کہنہ مشق استادوں نے بنایا ہے۔ ایسے صاحب فن استاد جن کی آنکھوں نے اپنے گرد و پیش کے جانوروں کا، ان کے عادات و خصائل کا، کردار، مزاج اور حرکات کا بہت گہرا مطالعہ کیا تھا۔ یہ فنکار جانتے تھے کہ حملہ کرتے وقت یا دوڑتے وقت جانور کے جسم کی داخلی اور خارجی کیفیت کیا ہوتی ہے اور جانور زمین پر بیٹھا یا آرام کرتا ہو تو اس کی دھج کیا ہوتی ہے۔ تجربے اور مشاہدے سے اس نے یہ بھی سیکھ لیا تھا کہ جسم کے کس حصے پر بھالے کی ضرب سے جانور کو گرایا جاسکتا ہے۔
غار کی تصویروں پر نیزوں اور بھالوں کی مشق کے جو نشان بنے ہیں، ممکن ہے کہ ان کا مقصد نو آموز شکاریوں کی تعلیم ہو۔ ابتدائی حجری دور کا انسان کفایت شعاری کرنے پر مجبور تھا۔ اس کے پاس نہ تو آلات واوزار کی فراوانی تھی اور نہ جانوروں کی۔ وہ نہ تو آلات شکار ضائع کرسکتا تھا اور نہ شکار۔ یوں بھی بعض جنگلی جانور بڑے خطرناک ہوتے تھے اور چونکہ وار بہت قریب سے کیا جاتا تھا، اس لئے اندیشہ رہتا تھا کہ وار خالی ہونے کی صورت میں شکار کہیں پلٹ کر حملہ نہ کردے لہٰذا دور اندیشی کا تقاضا تھا کہ جانوروں کے ہوبہو مجسمے اور تصویریں بنائی جائیں اور نئے شکاریوں سے ان پر نیزہ اندازی کی مشق کرائی جائے تاکہ نشانہ پختہ ہو جائے، تب انہیں شکار کی مہم میں شریک ہونے کی اجازت دی جاتی تھی۔ آج کل جو چاند ماریاں یا فوجی مشقیں ہوتی ہیں ان کا بھی یہی مقصد ہے۔۔ پرانے زمانے میں دیو پیکر جانوروں کا شکار جنگی مہم سے کم خطرناک نہ ہوتا تھا۔
ہر عہد کا فن روحِ عصر کا ترجمان یا نمائندہ ہوتا ہے۔ اس میں معاشرے کے اجتماعی اور انفرادی ہیجانات و اضطراب کی جھلک پائی جاتی ہے۔ وہ معاشرے کی کلفتوں اور اذیتوں، آرزؤوں اور امنگوں کا اظہار کرتا ہے، اس کی خوشیوں اور کامرانیوں کے گیت گاتا ہے، اس کی قدروں کی پاسداری کرتا ہے اور اس کے مروجہ عقائد وتصورات کی خدمت کرتا ہے۔ چناں چہ قدیم مصری آرٹ کا محور اور محرک مردہ پرستی ہے کیوں کہ مصر کے فرعونوں اور پروہتوں نے بڑی چالاکی سے پوری قوم کو حیات بعد الموت کے جال میں پھنسا رکھا تھا۔ خود نہایت عیش و آرام کی زندگی گزارتے تھے اور عام رعایا کو دوسری دنیا کا سبز باغ دکھاتے تھے۔ وہ بھی اس شرط پر کہ رعایا فرعون اور دوسرے برگزیدہ بندوں کی بے چوں چرا خدمت کرتی رہے۔
اسی طرح یونان اور ہندوستان کے فنون کی بنیاد صنم پرستی پر ہے اور قرونِ وسطیٰ کے مغربی فن کی مسیحی عقائد کی ترویج و اشاعت پر۔ فن اور معاشرے کا یہ تعلق فقط مقصد اور ماہیت تک محدود نہیں ہے بلکہ فن کی ہیئت اور طرز ادا میں بھی روح عصر کا پرتو صاف نظر آتا ہے۔ مثلاً زراعت کی ایجاد کے بعد ہر ملک کا فن اقلیدسی اصول کا پابند ہو گیا۔ چنا نچہ مصر اور بابل کے تمام مجسمے، تصویریں اور عمارتیں دراصل ایک مثلث ہیں۔ اس کے برعکس جسم انسانی سے لذت لینے والے یونانیوں اور ہندوستانیوں کا تمام آرٹ، جسم انسانی کی بنیادی ساخت کے تابع ہے۔ ایک خط مستقیم ہے جو ریڑھ کی ہڈی کی مانند پوری تصویر کا بوجھ برداشت کرتا ہے اور جس طرح جسم انسانی میں تناسب موجود ہے، یعنی ریڑھ کی ہڈی کے ایک سمت ایک ہاتھ ہوتا ہے اور دوسری سمت دوسرا ہاتھ، یادو آنکھیں اور دوپاؤں ہوتے ہیں، اسی طرح ان ملکوں کی تصویروں میں بھی تناسب پایا جاتا ہے۔
مگر قدیم حجری دور میں انسانی معاشرے کے بارے میں ہماری معلومات اتنی مختصر اور ناکافی ہیں کہ اس عہد کے فن کے مقاصد ومحرکات کی تہہ تک پہنچنا آسان نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آثار قدیمہ کے عالموں میں غاروں کی تصویروں، کندہ کاریوں اور مجسموں کی غرض وغایت کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض دانشوروں کا خیال ہے کہ یہ فن پارے دراصل وقت کاٹنے کے مشغلے تھے۔ بارش، برف باری یا شدید سردمی میں لوگ جب غاروں میں بیکار بیٹھتے تھے تو دل بہلانے کی خاطر تصویریں بنایا کرتے تھے۔ اسی سے ملتا جلتا وہ ددبستانِ فکر ہے جس کا خیال ہے کہ یہ تصویریں فقط ذوق جمال کی تسکین اور اظہار حسن کے جذبے کے تحت بنائی گئیں۔ ان تصویروں کا مقصد فقط غاروں کی آرائش وزبیائش تھی۔ مگر ان جمالیاتی اور تفریحی نظریوں کے خلاف بکثرت داخلی اور خارجی شہادتیں موجود ہیں۔
اول یہ کہ قدیم انسان نے یہ تصویریں ان غاروں میں نہیں بنائیں جن میں وہ رہتا تھا۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ مصور غاروں میں بود و ماند کے کوئی آثار نہیں ملتے۔ وہاں نہ جانور کی ہڈیاں پائی گئی ہیں اور نہ کوئلے اور راکھ کے ڈھیر۔ اس کے برعکس فنکاروں نے بسا اوقات غیر آباد غاروں کے کسی نہایت تاریک اور تنگ گوشے کو چنا ہے۔ ان غاروں میں روشنی کا گزر نہ تھا۔ وہاں پہنچنے کے لیے انہیں رینگ کر جانا ہوتا تھا اور تصویر بنانے کے لیے زمین پر لیٹ کر کام کرنا ہوتا تھا۔ ظاہر ہے کہ تفریح کے لیے یاذوق جمال کی تسکین کے لیے کوئی اتنے پاپڑ نہیں بیلتا۔
دوسرے یہ کہ بکثرت تصویریں غاروں کے ایک مخصوص حصے میں ایک دوسرے کے اوپر بنائی گئی ہیں۔ حالانکہ بالکل قریب کی چٹانیں بالکل خالی پڑی ہیں۔ اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ سحر پر اعتقاد رکھنے والے قدیم انسانوں کی نظر میں ان مخصوص جگہوں کی بڑی اہمیت تھی۔ یہ جگہیں بڑی سبھاگی تھی۔ بڑی آور تھیں۔ ایک کے اوپر دوسری تصویر بنانے کی روایت غالباً اس طرح پڑی ہوگی کہ پہلے کسی قبیلے نے اپنے سحر کے لیے غار کا ایک حصہ چنا ہوگا اور وہاں شکاری جانوروں کی تصویریں بنائی ہوں گی اور افزائش نسل اور ہلاکت نسل کے سحر میں کامیاب ہوئے ہوں گے، یعنی جانوروں کی نسلیں بڑھی ہوں گی اور شکار بھی افراط سے ہاتھ آیا ہوگا۔ اس قبیلے کے چلے جانے کے بعد دوسرا قبیلہ آیا ہوگا۔ اس متبرک مقام کا علم ممکن ہے، اسے پہلے سے ہو یا وہاں پہنچ کر اس راز سے آگاہ ہوا ہو۔ زبیائش و آرائش سے نہ تو اس کے پیش روؤں کو کوئی دلچسپی تھی، نہ نوواردوں کا مقصد زیبائش و آرائش تھا۔ ورنہ وہ اپنے پیش روؤں کے شاہکار کو خراب نہ کرتے اور نہ پرانی تصویروں کے اوپر دوسری تصویریں بناتے۔ اس عمل کا مقصد یہ تھا کہ ان کا افزائشِ نسل اور ہلاکت نسل کا سحر بھی اسی طرح کامیاب ہو جس طرح ان کے پیش رؤوں کا ہوا تھا۔
تیسرے یہ اکثر دیواری تصویروں کے ارد گرد عجیب وغریب اقلیدسی علامتیں بنی ہوئی ہیں۔ یہ علامتیں جمالیاتی اور فنی نقطۂ نظر سے بہت بھونڈی اور بے جوڑ ہیں اور تصویروں کے حسن ترتیب و آہنگ سے میل نہیں کھاتیں اور نہ اصل تصویر کا جز معلوم ہوتی ہیں۔ در اصل سحر کے علاوہ ان علامتوں کی اور کوئی توجیہہ ہوہی نہیں سکتی۔ اسی طرح بہ کثرت تصویریں ایسی ہیں جن میں بھالے، نیزے، تیر وغیرہ کے نشان بنے ہیں جو صاف بتاتے ہیں کہ فنکار نے شکار کے مناظر کی نقشہ کشی کی ہے۔ بہت سی مصور چٹانوں پر تو بھالے، نیزے اور تیراندازی کے نشان تک موجود ہیں، ان سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ تصویروں کی تکمیل کے بعد کسی خاص رسم سحر کے تحت ان پر ہتھیار پھینکے گئے تھے یا نشانے کی مشق کی گئی تھی۔
آلاتِ شکار پر بھی جانوروں کی تصویریں اسی سحر کے ماتحت بنائی گئی ہیں کیوں کہ برفانی دور کے انسان کا عقیدہ تھا کہ ہڈی، ہاتھی دانت اور پتھر کے آلاتِ شکار پر جانوروں کے نقش کھودنے سے اصل جانور آلات کے قابو میں آجاتے ہیں۔ ہڑپا، موہن جودوڑو، مصر، عراق اور ایران وغیرہ میں قدیم زمانے کے جو نقشی ظروف ملے ہیں ان کے نقوش کا تعلق بھی عمل سحر سے ہے۔ ظروف سجاوٹ کے لیے نہیں بنائے گئے تھے اور نہ روز مرہ کے استعمال میں آئے تھے مگر اس بحث کا مطلب یہ نہیں ہے کہ برفانی دور کا انسان ذوقِ جمال یا جمالی ذوق سے خالی تھا۔
اس کی فنی آگہی کا سب سے بڑا ثبوت اس کی تصویریں ہیں، جن میں اس نے فن کے تمام تقاضے بڑی خوبصورتی سے پورے کیے ہیں۔ وہ ان تصویروں کو بڑی محنت اور محبت سے بناتا تھا۔ ان تصویروں میں خطوط کی روانی، اختصار اور سادگی، ان کے لیے اثر انگیز اور معنی خیز رنگوں کا انتخاب، ان کی گہرائی اور موزونیت غرض جس پہلو سے بھی دیکھئے ان قدیم فنکاروں کے شعور کی داد دینی پڑے گی۔ ہونہار مصوروں کو باقاعدہ تصویر کشی کی تعلیم دی جاتی تھی۔ وہ برسوں مشق کرتے تھے تب کہیں انہیں متبرک مقامات پر تصویر بنانے کی اجازت ملتی تھی۔ گھٹیادرجے کی تصویریں رد کردی جاتی تھیں۔ عمدہ تصویروں کے نمونے اور چربے دور دور بھیجے جاتے تھے یا محفوظ رکھ لیے جاتے تھے۔ یہ ساری کاوش ومشق، یہ ردو قبول بتاتی ہے کہ ان کا اپنا ایک معیارِ حسن اور میزانِ فن ضرور تھا۔ البتہ وہ فقط ذریعہ تھا اصل مقصد کی تسکین کا۔
بعض تصویریں ایسی ضرور ہیں جن کی حیثیت تاریخی یا یادگاری ہے۔ شاید ان کا تعلق قبیلے کی زندگی کے اہم حادثے سے ہو یا کوئی ایسا سانحہ پیش آیا ہو جس سے پورا قبیلہ متاثر ہوا ہو۔ مثلاً لیسکا کے غار میں موت کا منظر یا ریچھ اور آدمی کی لڑائی یا التمیرا کے سقف کی تصویریں۔
اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ برفانی انسانوں نے نمائندہ تصویریں کیوں بنائیں۔ تجریدی تصویریں کیوں نہیں بنائیں۔ پروفیسر ہینز کون کا خیال ہے کہ برفانی انسان کا ذہن فقط ٹھوس حقیقتوں کا تصور کرسکتا تھا۔ وہ جو کچھ دیکھتا تھا اس کی ہوبہو نقل بنا سکتا تھا، مگر ابھی اس کے ذہن نے اتنی ترقی نہ کی تھی کہ وہ ان ٹھوس حقیقتوں کی تجرید کر سکے۔ و ہ درختوں کو دیکھ سکتا تھا، مگر جنگل کا تصور نہ کر سکتا تھا۔
پروفیسر ہیوگواوبر میئرؔ اور ایبے بروئیلؔ اس نظریے کو نہیں مانتے۔ وہ اپنی تائید میں آدمیوں کی وہ مجرد تصویریں پیش کرتے ہیں جو جانوروں کی نمائندہ تصویروں کی ہم عصر بلکہ ان کا جز ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ برفانی انسان ہو بہو اور نمائندہ تصویریں بھی بنا سکتا تھا اور تجریدی عمل سے بھی واقف تھا اور حسب ضرورت ان دونوں طریقوں سے کام لیتا تھا۔ اس نے جانوروں کی نمائندہ تصویریں اس لیے بنائیں کہ ان پر آلات شکار کی مشق کرنی ہوتی تھی یا اس لیے بنائیں کہ ایک نئے اور حقیقی جانور کو اپنے سحر کے زور سے عدم سے وجود میں لانا تھا یا اسے ہلاک کرنا تھا۔ برفانی انسان کی مثال اس ریڈانڈین کی ہے جس نے ایک آرٹسٹ کو بیسن کی تصویریں بناتے دیکھ کر شکایت کی تھی کہ تم نے ہمارے کئی بیسن اپنی کتاب میں بند کرلیے ہیں۔
برفانی دور کا انسان تین قسم کے سحر پر اعتقاد رکھتا تھا،
(۱) سحر تخلیق
(۲) سحرِ تخریب
(۳) سحرِ رضاجوئی
ان میں سب سے قدیم تخلیق کا سحر ہے۔ اس کا ثبوت اس بات سے ملتا ہے کہ برفانی عہد کے سب سے پرانے فن پارے وہی ہیں جن کا تعلق تخلیق کے سحر سے ہے۔ یہ فن پارے عورتوں کے مجسمے ہیں۔ یہ مجسمے مشرق میں جھیل بیکال سے اسپین کی شمالی سرحد تک پائے گئے ہیں۔ یعنی اس پورے خطے میں جو عہد قدیم میں برف سے ڈھکا ہوا نہیں تھا۔
یہ مجسمے جن کی تعداد ۱۳۰ سے تجاوز کر گئی ہےاسپین، فرانس، جرمنی، اٹلی، آسٹریلیا، روس اور چیکوسلو واکیہ کے غاروں میں ملے ہیں۔ ان کی ساخت میں قبیلوں کی فنی روایتوں اور جغرافیائی حالات کے اختلاف کے باعث تھوڑا بہت فرق ضرور پایا جاتا ہے مگر اپنی نوعیت اور ماہیت کے اعتبار سے سب مجسمے یکساں ہیں۔ مثلاً پتھر کے یہ مجسمے قریب قریب سب ہی عورتوں کے ہیں اور ان میں فنکار کی توجہ کا مرکز عورتوں کے جنسی اعضا ہیں۔ ان اعضا کو بڑے مبالغے کے ساتھ نمایاں کیا گیا ہے البتہ دوسرے اعضا کو مثلاً آنکھ، ناک، منھ کو نظر انداز کردیا گیا ہے۔ یہ مجسمے بالکل برہنہ ہیں مگر بعض مجسموں میں عورتیں زیور پہنے ہوئے ہیں۔ یہ مجسمے ’’ماں‘‘ کے ہیں جو تخلیق کا سرچشمہ ہے۔
ان میں سب سے مشہور مجسمہ وہ ہے جو ۱۹۰۸ء میں وِلن دراف (آسٹریلیا) کے مقام پر دریافت ہوا۔ عورت کا یہ بت ساڑھے چار انچ بڑا ہے۔ اس کے سر کے بال شہد کے چھتے کی طرح ہیں۔ اس کی چھاتیاں مشک کی مانند پھولی ہوئی اور لوکی کی مانند نیچے کو لٹکی ہوئی ہیں۔ اس کے کولھے بہت چوڑے ہیں اور پیٹ بہت بڑا ہے۔ اس کی بانہیں بہت پتلی ہیں اور پیڑو پر رکھی ہوئی ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ کسی کنواری لڑکی یا بانجھ عورت کا مجسمہ نہیں ہے بلکہ ایسی عورت کا مجسمہ ہے جو ماں بن چکی ہے یا ماں بننے والی ہے۔
فنی اعتبار سے پونے چھ انچ کا وہ مجسمہ بھی نہایت حسین اور مکمل ہے جو جنوبی فرانس میں ملا ہے۔ یہ مجسمہ بھی عورت کا ہے جس کے جنسی اعضا کو بڑھا چڑھا کر بتایا گیا ہے۔ قدیم انسان کے لیے جنسی اعضا کو بالخصوص عورت کے جنسی اعضا کو تخلیق کی علامت قرار دینا قدرتی بات تھی۔ اس تخلیقی عمل میں مرد کے کردار کا انسان کو شاید شعور نہ ہو لیکن عورت کے بارے میں تو کسی شک اور شبہے کی گنجائش نہ تھی کیوں کہ وضعِ حمل کے کچھ عرصے کے بعد عورت کے جسم میں تبدیلیاں ہونے لگتی تھیں اور ایک دن جب مرد شکار سے واپس آتا تو غار میں اسے نومولود بچے کے رونے کی آواز سنائی دیتی تھی۔
تخلیق کے یہی مظاہر اس نے جانوروں میں بھی دیکھے ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ اس عقیدے میں عورت کی اہمیت مرد سے زیادہ تھی۔ لہٰذا عورت کا جسم تخلیق کی علامت بن گیا۔ اس وقت کے انسان کو خاندانی منصوبہ بندی کی ضرورت نہ تھی۔ بلکہ اس کا سب سے بڑا مسئلہ افزائش نسل تھا کیوں کہ آبادی بہت کم تھی۔ موسم نہایت سخت تھا۔ برف کے طوفان آتے اور ٹھنڈی اور بھیگی ہواؤں کے تیر ہڈیوں میں پیوست ہو جاتے تھے۔ بچے موسم کی اس سخت گیری کی تاب نہ لاسکتے اور بیمار ہوکر مر جاتے۔ دوا علاج کا بھی کوئی انتظام نہ تھا نتیجہ یہ تھا کہ صغر سنی کی موت عام تھی۔
قبیلوں کے لیے اپنی زندگی کی بقا اور اپنی نسل کی افزائش اتنی ہی اہم تھی جتنی شکار کی تلاش۔ آبادی کی قلت کے باعث جنگلی جانوروں کے شکار میں بھی دشواری پیش آتی تھی۔ قبیلے کی آبادی زیادہ ہوتی تو شکار بھی زیادہ ہاتھ آتا تھا۔ آبادی کم ہوتی تو شکار بھی کم ملتا تھا اور جب شکار کم ملتا تو آبادی کی قوتِ مدافعت گھٹنے لگتی اور قبیلے کی تعداد اور کم ہوجاتی۔ غرض پورا معاشرہ بدی کے ایک چکر میں مبتلا تھا اور اس چکر سے نکلنے کی بس یہی ایک صورت تھی کہ نسل انسانی میں جس طرح بھی ہو، اضافہ کیا جائے۔ چنانچہ افزائش نسل کے لیے مادرتخلیق کے مجسمے بنائے گئے تاکہ تخلیق کے سحر میں کام آسکیں۔ یہ کوئی نہیں بتا سکتا کہ یہ سحر کیا تھا۔ شاید عورت اور مرد مباشرت سے پہلے اس مجسمے کو چھوتے ہوں یا اپنے بعض اعضا کو اس پر رگڑتے ہوں یا جب عورت یا مرد سنِ بلوغ کو پہنچتا تو جادوگر ان کو پاس بٹھا کر کوئی منتر پڑھتا یا کوئی خاص رسم ادا کرتا۔
بعض پرانی قوموں میں اب بھی یہ رواج ہے کہ لڑکی کو جب پہلی بار حیض آتا ہے تو بستی میں بڑی خوشی منائی جاتی ہے۔ لڑکی کو سرخ رنگ کی پوشاک پہنائی جاتی ہے کہ سرخ رنگ قدیم سے زندگی کی علامت ہے اور پھر سب لوگ اسے مبارک باد دیتے ہیں۔ یہ رسمیں اسی زمانے کی یادگار ہیں جب افزائشِ نسل ایک اہم سماجی عمل تھا۔ بہرحال برفانی انسان کے لیے یہ مجسمے تخلیق کی علامت تھے۔ اس سے غرض نہیں کہ وہ ان کو چھوتا تھا یا ان پر منتر پڑھتا تھا البتہ یہ ثابت شدہ بات ہے کہ وہ ان مجسموں کی پرستش نہیں کرتا تھا کیوں کہ ابھی تک اس میں اپنے سے افضل واعلیٰ کسی خارجی طاقت کا شعور پیدا نہیں ہوا تھا۔ ان غاروں میں جہاں یہ مجسمے تھے، پرستش کے کوئی آثار بھی نہیں ملے ہیں نہ چڑھاوے کی چیزیں نکلی ہیں اور نہ قربانی کے نشان۔ البتہ کئی ہزار سال بعد جب آنے والی نسلوں نے دیوی دیوتا بنائے تو اس مادرِ تخلیق نے کہیں عشتار کا روپ دھار ا، اور کہیں وہ ناہید، افرودیتی یا وینس کی شکل میں لوگوں کی عبادت کا مرکز بن گئی۔
مادر تخلیق کے یہ مجسمے تاریخی اعتبار سے سب سے قدیم ہیں اور ان کا محرک نسلِ انسانی کی افزائش کا جذبہ ہے البتہ بعد میں جب آبادی بڑھ گئی اور نسلِ انسانی کی افزائش سے زیادہ جانوروں کی افزائش ضروری خیال کیا جانے لگا تو عورتوں کے ان مجسموں کی جگہ حاملہ جانوروں کی تصویروں نے لے لی۔ چنانچہ اسپین اور فرانس کے غاروں میں حاملہ جانوروں کی کثرت ہے۔
نسل انسانی کی افزائش اور بقا کے علاوہ برفانی انسان کا دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ اپنے قبیلے کے لیے غذا اور دوسری ضروریات ِ زندگی کیوں کر حاصل کی جائیں۔ یہ ضروریات زندگی فقط جانوروں کے شکار سے پوری ہوتی تھیں، شکار کی یہ مہمیں آج کل کے مرغابی یا ہرن کے شکار کی مانند نہ تھیں بلکہ ان میں جان جوکھم کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ جنگل میں شیر، بھالو، گینڈا اور دوسرے درندے ہوتے تھے۔ ہڈی کے تیر اور پتھر کے نیزے ان پر اثر نہ کرتے تھے۔
دوسرے جانور بھی مشکل سے ہاتھ آتے تھے۔ اس لیے شکار کی مہم سے پیشتر ہلاکتی یا تخریبی سحر کی ضرورت پڑتی تھی۔ کبھی وہ ایک رسم کے تحت دیوار پر بنی ہوئی تصویروں پر تیر، نیزے اور بھالے مارتے تھے (اس نشان بازی کے نشان تصویروں پر اب تک موجود ہیں) اور ان کو یقین ہوجاتا تھا کہ ان کا شکار ہلاک ہوگیا یا ہو جائے گا۔ کبھی ساحر انہیں ان تصویروں کے روبرو لے جاتا تھا جن میں جانوروں کو جال میں پھنسا ہوا یا سحر کے اثر سے بے بس اور لاچار دکھایا گیا ہے یاجن کے جسم میں زخم کے نشان بنے ہیں اور وہ خون آلودہ ہیں یا جن کے جسم میں آلاتِ شکار پیوست ہیں۔ ان رسموں کے بعد شکاری بڑی خود اعتمادی اور یقین سے اپنی مہم پر روانہ ہوجاتے تھے۔ اگر کامیاب لوٹے تو سحر کی گرفت ان کے ذہنوں پر اور مضبوط ہو جاتی تھی۔ ناکام ہوئے تو اپنے آپ کو یہ کہہ کر تسلی دے لیتے تھے کہ ادائیگی رسم میں ہم سے کوئی بھول ہوگئی ہو گی۔
رضا جوئی کا سحر درندوں اور دوسرے خطرناک جانوروں کی خوشنودی کے لیے مخصوص تھا۔ برفانی انسان ان درندوں کو ہلاک کرتے ڈرتا تھا کہ مبادا وہ یا ان کی نسل خفا ہوکر ہمیں کوئی گزند پہنچادے چنانچہ یہ لوگ شکاری درندوں کو مارنے کے بعد ایک رسم کے تحت ان کی خوشامد کرتے تھے تاکہ ان کی خفگی دور ہوجائے۔ فرانس کے ایک غار میں مٹی کا بنا ہوا ریچھ کا ایک مجسمہ ملا ہے جس کا سر ندار د ہے البتہ اس کی گردن کے پاس خون کے نشان ہیں اور آس پاس کئی ریچھوں کی کھوپڑیاں پڑی ہیں۔ علمائے آثار نے اس سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ برفانی انسان ریچھ کا شکار کرنے کے بعد اس کا سر (جسے وہ جسم کا سب سے اہم حصہ سمجھتا تھا) مٹی کے دھڑ سے جو ڑ دیتا تھا اور یہ سمجھ لیتا تھا کہ ریچھ کو اس کے ہاتھوں کو ئی ضرر نہیں پہنچا ہے بلکہ وہ دوبارہ زندہ ہوگیا ہے۔ تب وہ ریچھ کے جسم کو کھا لیتا تھا اور اس کی کھال سے اپنے لیے پوشاک تیار کرتا تھا۔
کتنا کار آمد تھا یہ سحر۔ التمیرا کے سقف میں اسی طرح بیسنوں کی رضا جوئی کی نقشہ کشی کی گئی ہے۔ چین اور جاپان کی پرانی رسم ہے کہ باورچی سبزیوں کو پکانے سے پہلے میز پر قرینے سے سجا دیتے ہیں اور ان کے سامنے دو زانو بیٹھ کر اور ہاتھ جوڑ کرسبزیوں سے معافی کی دعا مانگتے ہیں۔
قدیم حجری دور کے ہم پر بڑے احسانات ہیں۔ اس دور میں انسان جانور سے آدمی بنا۔ تہذیب کی ابتدا ہوئی، آدمی نے آگ کا استعمال معلوم کیا، آلات اور اوزار بنائے، تسخیر قدرت کی کوششیں شروع کیں اور مادے کی ہیئت و ماہیت میں تبدیلیاں کر کے سائنس کی جانب پہلا قدم اٹھایا۔ اس نے مصوری اور مجسمہ سازی جیسے دو نہایت دلکش فن ایجاد کیے۔ حجری انسان کی فنی تخلیقات کی دریافت سے ہمارے تہذیبی سرمائے میں گراں قدر اضافہ ہی نہیں ہوا ہے بلکہ جدید انسان کا نقطۂ نظر بھی بدلا ہے۔ ان دریافتوں سے پیشتر دورِ حاضر کے لوگ حجری دور کے انسانوں کو جنگلی اور وحشی خیال کرتے تھے اور ان کو جمالیاتی ذوق اور لطیف احساسات سے قطعاً عاری سمجھتے تھے۔ غاروں کے حسین نقوش نے ثابت کردیا کہ حجری انسان کا تخلیقی شعور بیدار ہوچکا تھا۔ اس کا عزم جوان تھا اور ہمت شکن حالات کے آگے سپر ڈالنے کے بجائے وہ بڑی خود اعتمادی سے ان حالات کا مقابلہ کرتا تھا اور ان کو بدلنے میں حتی المقدور کامیاب بھی ہوتا تھا۔