زندہ آدمی سے کلام

کبھی وقت کی سانس میں
ہونٹ الجھا کے دیکھے ہیں تم نے
کہ اس بد گماں موسموں کے مغنی کی تانیں
نہاں خانۂ دل میں
گہری خموشی کی ہیبت گراتی چلی جا رہی ہیں
ازل سے ابد تک بپھرتے ہوئے
سیل بے مائیگی میں کبھی
دل اکھڑتے ہوئے شہر گرتے ہوئے
دیکھ پائے ہو تم
کبھی بھیگے بھیگے سے دیوار و در میں
کہ بچپن کی گلیوں مکانوں میں
بارش کی آواز سے دل دہلتے ہوئے
کسی مشترک خوف کی آہٹوں سے
دھڑکتے ہوئے بام و در اور زینے
مسلسل ہوا اور بارش کی آواز چلتی ہوئی
کبھی منہ اندھیرے کی تقدیس میں
دور سے آتی گاڑی کی سیٹی کو سنتے ہوئے
تم نے سوچا ہے ان کے لئے
جن کے قدموں میں منزل
مسلسل عذاب اور خوابوں سے تعبیر تک دور ہے
کبھی شام کی سنسناتی ہوا میں
ٹھٹھرتی خموشی کی سہمی صدا سن کے
دروازہ کھولا ہے ان کے لئے
جن کے ہاتھوں کی لرزش میں دستک نہیں
مجھے پوچھنا ہے
کہ کھلتے ہوئے پھول چلتی ہوا
اور گزرے مہ و سال کی دستکوں پر
نہ ہو سکنے والوں پہ آنسو بہائے ہیں تم نے
کہ میں
رات کی ایک ہچکی میں ٹھہری ہوئی سانس ہوں
اور تمہاری گھنی نیند کے بازوؤں سے
پھسلتا ہوا لمس ہوں