ضمنی انتخابات: پاکستان میں الیکٹ ایبلز اپنی خاندانی سیاست کیسے کرتے ہیں؟
ہمارے ہاں یہ تاثر ہے کہ ملک پر چند ہی خاندانوں کی حکمرانی ہے۔ انہیں خاندانوں کا ایک رکن اگر ایک سیاسی پارٹی سے انتخاب لڑتا ہے تو دوسرا رکن دوسری سے۔ یوں یہ خاندان پاکستان کی سیاست پر اپنی بالادستی قائم رکھتے ہیں۔
یہ تاثر اس وقت تقویت پکڑ جاتا ہے جب مظفر گڑھ کے حلقہ 272 کے بخاری خاندان جیسی مثالیں سامنے آتی ہیں۔ پنجاب کی تحصیل مظفر گڑھ کے حلقہ 272 اور 273 میں سترہ جولائی کو ضمنی انتخاب ہونے جا رہا ہے۔ اس انتخاب میں حلقہ 272 سے پاکستان تحریک انصاف کے قومی اسمبلی کے رکن باسط سلطان بخاری کی بیگم زہرا باسط بخاری اور بھائی ہارون بخاری مد مقابل آ رہے ہیں۔ باسط سلطان بخاری نے 2018 کے عام انتخابات میں اسی علاقے کی قومی اور صوبائی اسمبلی دونوں سیٹوں سے انتخاب لڑا تھا اور دونوں جیتے تھے۔ قومی اسمبلی کے حلقے 185 سے سید باسط بخاری کو آزاد حیثیت میں 94482 ووٹ پڑے تھے، جب کہ اس انتخاب میں ان کی ہی بیگم زھرا باسط بخاری ان کے مد مقابل آزاد حیثیت میں موجود تھیں۔ ان کو تین ہزار سے کچھ اوپر ووٹ پڑے تھے۔ جب کہ سلطان بخاری نے صوبائی حلقے 272 سے بھی انتخاب لڑا تھا اور 23587 ووٹ لے کر فاتح قرار پائے تھے۔ اسی انتخاب میں ان کے سگے بھائی ہارون بخاری مد مقابل تھے جنہیں پندرہ ہزار سے کچھ اوپر ووٹ پڑے۔
یہ وہی ہارون بخاری ہیں جو بعد میں اپنی والدہ کے مدمقابل آ گئے اوراب سترہ جولائی کو ہونے والے ضمنی انتخاب میں اپنی بھابھی اور سید سلطان بخاری کی بیگم زھرا باسط بخاری کے مد مقابل آ رہے ہیں۔ در اصل ہوا کچھ یوں کہ جب سلطان بخاری صوبائی اور قومی دونوں سیٹوں سے جیت گئے تو اب انہیں ایک سیٹ خالی کرنا تھی۔ انہوں نے صوبائی سیٹ خالی کی اور قومی اسمبلی میں پاکستان تحریک انصاف سے منسلک ہو گئے۔ اپنی صوبائی سیٹ پر انہوں نے اپنی والدہ زھرہ بتول کو ضمنی انتخاب میں کھڑا کر دیا۔ ان کے مد مقابل ان کا اپنا ہی بیٹا ہارون بخاری آزاد حیثیت میں موجود تھا۔ زھرا بتول انتخاب جیت گئیں اور انہوں نے پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کر لی۔ اب کہ جب پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا ہنگامہ کھڑا ہوا تو وہ ان پچیس منحرف اراکین میں شامل تھیں جنہوں نے پارٹی لائن کی مخالفت کی۔ الیکشن کمیشن نے انہیں ڈی سیٹ کر دیا اور اب سترہ جولائی کو دوبارہ ضمنی انتخاب ہونے جا رہا ہے جس میں ان کی بہو اور بیٹا آمنے سامنے ہیں۔
ہے ناں سب مزے کی بات۔ سیٹ جہاں مرضی جائے رہے گی اپنے ہی پاس۔ اسے کہتے ہیں الیکٹیبلز کی سیاست!