ذکر ہم سے بے طلب کا کیا طلب گاری کے دن
ذکر ہم سے بے طلب کا کیا طلب گاری کے دن
تم ہمیں سوچو گے اک دن خود سے بے زاری کے دن
منہمک مصروف ایک اک کام نمٹاتے ہوئے
صاف سے روشن سے یہ چلنے کی تیاری کے دن
روز اک بجھتی ہوئی سیلن بھرے کمرے کی شام
کھڑکیوں میں روز مرجھاتے یہ بیماری کے دن
نم نشیلی ساعتوں کی سرد زہریلی سی رات
خواب ہوتے جا رہے ہوں جیسے بے داری کے دن
حافظے کی سست رو لہروں میں ہلچل کیا ہوئی
جاگ اٹھے دھڑکنوں کی تیز رفتاری کے دن
ذہن کے صحرا میں اٹھتا اک بگولہ سا کبھی
گاہے گاہے کار آمد سے یہ بیکاری کے دن
دم بہ دم تحلیل سا ہوتا ہوا منظر کا بوجھ
سہل سے ہوتے ہوئے پلکوں پہ دشواری کے دن
عمر کے بازار کی حد پر نوادر کی دکاں
کچھ پرکھتے دیکھتے چنتے خریداری کے دن
رہ گئی کاغذ پہ کھنچ کر لفظ سے عاری لکیر
سازؔ شاید بھر گئے ہیں اب مرے قاری کے دن