زیست یوں غم سے ہم آغوش ہوئی جاتی ہے

زیست یوں غم سے ہم آغوش ہوئی جاتی ہے
عشرت رفتہ فراموش ہوئی جاتی ہے


اس نے اک بار پکارا تھا حریم دل سے
زندگانی ہمہ تن گوش ہوئی جاتی ہے


تم نہ اٹھو مرے پہلو سے خدارا دیکھو
کائنات آنکھوں سے روپوش ہوئی جاتی ہے


وہ ادھر مجھ سے خفا ہو کے اٹھے ہیں تو ادھر
نبض دل دیکھیے خاموش ہوئی جاتی ہے


کثرت غم ہے کہ تکمیل جنوں ہے سلمانؔ
یاد بھی ان کی فراموش ہوئی جاتی ہے