زیست کب اختتام تک پہنچی

زیست کب اختتام تک پہنچی
صرف مٹی مقام تک پہنچی


زندہ رہنے کو تھا حلال بہت
پھر بھی دنیا حرام تک پہنچی


سرکشی کے نصیب میں پتھر
بندگی فیض عام تک پہنچی


مسئلہ صرف کرسیوں کا تھا
بات بابر سے رام تک پہنچی


کام آتی تھی مشکلوں میں کبھی
دوستی اب سلام تک پہنچی


پردہ اٹھتے ہی گھر کی زینت بھی
کیسے کیسے مقام تک پہنچی


میکدہ تو کھلا رہا دانشؔ
تشنگی خود نہ جام تک پہنچی