زیست آزار ہوئی جاتی ہے
زیست آزار ہوئی جاتی ہے
سانس تلوار ہوئی جاتی ہے
جسم بے کار ہوا جاتا ہے
روح بیدار ہوئی جاتی ہے
کان سے دل میں اترتی نہیں بات
اور گفتار ہوئی جاتی ہے
ڈھل کے نکلی ہے حقیقت جب سے
کچھ پر اسرار ہوئی جاتی ہے
اب تو ہر زخم کی منہ بند کلی
لب اظہار ہوئی جاتی ہے
پھول ہی پھول ہیں ہر سمت ندیمؔ
راہ دشوار ہوئی جاتی ہے