ذہن و دل میں پچھلی شب کی داستاں تو صاف ہو

ذہن و دل میں پچھلی شب کی داستاں تو صاف ہو
جھلملائیں گے ستارے آسماں تو صاف ہو


غیر کو تو چھوڑ اس کا جو بھی ہو رد عمل
بات لیکن تیرے میرے درمیاں تو صاف ہو


رہروی جاری رہے بے شک ہو منزل کے خلاف
کارواں پر حکم میر کارواں تو صاف ہو


دل سمجھ لے گا اشارہ آپ کر کے دیکھیے
شرط ہے لیکن نگاہوں کی زباں تو صاف ہو


کس طرح آئے نظر ببیاکؔ اب زخم جگر
روزن دل وا ہو چشم خونچکاں تو صاف ہو