زوال حسن کو حسن نگار کیا جانے

زوال حسن کو حسن نگار کیا جانے
خزاں قدم بہ قدم ہے بہار کیا جانے


لکھا ہے اس کے مقدر میں اضطراب دوام
قرار کیا ہے دل بے قرار کیا جانے


نصیب راحت قرب دوام ہو جس کو
وہ لذت خلش انتظار کیا جانے


سمجھ رہے ہیں جسے سب گناہ گار یہاں
اسی پہ ہو کرم کردگار کیا جانے


کئے پہ اپنے ہو خود منفعل بشر آخر
یہی ہو جبر یہی اختیار کیا جانے


تڑپ رہا ہوں میں اپنے گناہ گن گن کر
اسی کا نام ہو روز شمار کیا جانے


کہاں یہ شام غریباں کہاں وہ صبح وطن
وہ فرق گردش لیل و نہار کیا جانے


جو پاؤں توڑ کے بیٹھے سر رہ منزل
وہ کب اٹھیں گے کوئی شہسوار کیا جانے


بایں کمال خرد کیوں ہے مائل الحاد
مقام جوشؔ کو محرومؔ زار کیا جانے