زوال فکر کو ذہنوں کی تیرگی کہتے
زوال فکر کو ذہنوں کی تیرگی کہتے
جو بات ہم نے کہی ہے وہ آپ بھی کہتے
فراز دار پہ روداد زندگی کہتے
خدا شناس جو ہوتے تو واقعی کہتے
ترس رہے ہیں جو راحت کی زندگی کے لئے
وہ کیسے غم کو مسرت کی زندگی کہتے
اب ایسے لوگ زمانہ سے اٹھ گئے شاید
تمہارے غم کو جو سرمایۂ خوشی کہتے
یہ فکر نو کے پجاری یہ روشنی کے امیں
جو روشنی کہیں ہوتی تو روشنی کہتے
بہت تلاش کیا ہم نے شہر غم میں مگر
ملا نہ کوئی جو روداد زندگی کہتے
جو کام اہل جنوں نے کیا بہ نام وفا
شعور مند اسے روح آگہی کہتے
جو کم نظر تھے عقیدت کو دیتے کفر کا نام
وفا پرست عقیدت کو بندگی کہتے
یہ اہل فکر یہ فنکار دور حاضر کے
غزل کے نام سے دنیا کی بات بھی کہتے
مرے جنوں کے تقاضے اگر سمجھ لیتے
مری خودی کو وہ معراج بے خودی کہتے
نگارؔ کاش یہ عیش و طرب کے دیوانے
ستم زدوں کی کہانی کبھی کبھی کہتے