ذوق شاعرانہ
میں تلاش کر رہی تھی غم دل کا کچھ بہانہ
مری راہ میں یہ ناحق کہاں آ گیا زمانہ
مرے حال پر کرم کر کبھی دوست غائبانہ
وہ سکون بخش دل کو کہ تڑپ اٹھے زمانہ
ہے طواف اب بھی جاری ترے آستاں کا لیکن
نہیں مل سکا جبیں کو ترا سنگ آستانہ
تری بارگاہ تک ہو مری کس طرح رسائی
مجھے دی گئی گدائی تجھے تخت خسروانہ
میں تڑپ تڑپ کے غم میں رہی بے قرار و مضطر
مرے دل کی دھڑکنوں کو نہیں سن سکا زمانہ
مرا شوق سجدہ ریزی ہے ہنوز نا مکمل
مجھے کوئی یہ بتا دے ہے کہاں وہ آستانہ
مرے غم کی زندگی پر مرے حال بیکسی پر
کبھی رحم ان کو آئے کبھی رو پڑے زمانہ
کئی بار آ کے بجلی گری صحن گلستاں پر
یہ رہی ہماری قسمت کہ جلا نہ آشیانہ
مجھے ہوش ہی نہیں کچھ کہ میں شاد ہوں کہ ناشادؔ
ہے سرور مے سے بڑھ کر مرا ذوق شاعرانہ