رشتوں کی تلاش اس قدر دشوار کیوں؟
نکاح سنت رسول ہونے کے ساتھ ساتھ ہمارے خاندانی نظام اور نسل انسانی کی بقا کا ضامن بھی ہے ۔اس نہایت اہم فریضے راستے میں لامتناہی رکاوٹیں حائل کر دی گئیں جن کی وجہ سے سالہا سال ہمارے نوجوان لڑکے لڑکیاں کسی "اچھے" رشتے کے انتظار میں بیٹھے رہتے ہیں ۔ بالوں میں چاندی اتر آتی ۔۔۔ چہروں پر جھریاں پڑنے لگتی ہیں ۔۔۔ فرسٹریشن اعصابی تناؤ ، چڑچڑے پن اور بدتمیزی کا روپ دھارنے لگتی ہے لیکن ہم اس " اچھا " رشتہ ڈھونڈنے کی سعی لاحاصل میں برسوں دربدر کی خاک چھاننے کے بعد بھی ناکام و نامراد رہتے ہیں ۔
شادی کی راہ میں حائل لاتعداد رکاوٹوں میں سے اکثر ہمارے غیر حقیقی اور تصوراتی معیارات سے متعلقہ ہیں ۔ ان میں سے کئی ایک تو ہمارے اپنے ذہنوں کے تخلیق کردہ ہوتےہیں اور بہت سے میڈیا بالخصوص ڈراموں سے اخذ شدہ ہیں۔
کیا لڑکی ایسی خوبیوں کی مالک ہے؟
اگر آپ لڑکے والے ہیں تو خواہ آپ کا لڑکا شکل سے کسی افریقی ملک کا باشندہ یا کوہ کہف کی کوئی مخلوق ہی نظر آتا ہو اس کے لیے لڑکی کوئی پریوں کے دیس سے آئی کوئی خوبرو حسینہ ہونی چاہیے ۔ اگر اس کے خدوخال کسی جنت کی حور سے کچھ ملتے جلتے ہوں تو اور بھی اچھا ہے ۔ اگر کسی وجہ سے ان دونوں معیارات پہ لڑکی کی خوبصورتی پورا نہیں اترتی تو کم ازکم مس یونیورس ، مس ورلڈ یا پھر کسی بین الاقوامی ماڈل سے تو اس کی ضرور شکل ملتی ہو۔ اگر یہ بھی نہیں تو خوبصورتی کا کم ترین معیار کسی "فیئر اینڈ گلو" کے کمرشل میں نظر آنے والی حسینہ کا ہے۔
لڑکی ماڈرن بھی ہو اور پردہ دار بھی۔ خدمت گزار، فرمانبردار اور کفایت شعار بھی ہو اور نازک اندام بھی۔ خوش لباس، خوش گفتار اور خوش مزاج ہو۔ آواز بہت مترنم نا بھی ہو تو کوئی بات نہیں کم از کم کسی ایف ایم ریڈیو کی میزبان جیسی تو ہو۔ لڑکا بڑا خوددار ہے جہیز جیسی لعنت کو برا سمجھتا ہے لیکن معاشرے میں لوگوں کا منہ بند کروانے کے لیے لڑکی والے کم ازکم اتنا سامان کو دیں کہ باتیں کرنے والوں کی زبان بند ہو جائے ۔ زندگی میں ایک بار ہی تو ہے کون سا لڑکے نے ساری زندگی سسرال سے ہی کھانا ہے۔۔
لڑکے میں یہ خوبیاں ہوں تو رشتہ قبول ہے ورنہ۔۔۔
ان غیر حقیقی معیارات کی پاسداری کا سہرا محض لڑکے والوں کے ہی سر نہیں ۔ لڑکی والے بھی کچھ اسی قسم کی خوبیوں کے متلاشی ہوتے ہیں ۔ لڑکا ہینڈسم ہو تو سونے پہ سہاگا ہے اگر نہیں تو کوئی بات نہیں اس کا شجرہ نسب اگر قارون سے نہیں تو حاتم طائی سے ضرور ملتا ہو۔ اپنا گھر کاروبار یا بہترین ملازمت تو ہو لیکن عمر زیادہ نہ ہو یعنی بچپن ہی سے کام دھندے پہ لگ گیا ہو تا کہ جلد سے جلد معاشی طور پر مضبوط ہو کر اپنی زندگی کا واحد مقصد شادی خانہ آبادی کے قابل ہو سکے۔ لڑکی والوں کی مطلوبہ مالی خصوصیات کا کم عمری میں حامل ہونا اگر ناممکن نہیں تو نہایت مشکل ضرور ہوتا ہے ۔
لڑکے کا گھر بہت شاندار ہونا چاہیے ۔ اگر اس میں مغلیہ دور کے شاندار محلات کی جھلک نظر نہیں آتی تو کوئی بات نہیں کم از کم پاکستانی ڈراموں میں دکھائی جانے والی سادہ سی عمارات کی جھلک ضرور نظر آنی چاہیے ۔ بجلی، گیس انٹرنیٹ کی سہولیات بہم میسر ہونی چاہیے ۔ گھر کے اندر کی صفائی کے تو لڑکے والے ذمہ دار ہیں ہی گھر کے اردگرد کا ماحول بھی صاف ستھرا ہونا چاہیے ۔ غرض گھر پہلے سے ہی جنت نظیر ہونا چاہیے تاکہ بہو رانی کو جو خود خواہ کچی آبادی سے تشریف لا رہی ہو ، ایڈجسٹ کرنے میں کسی طرح کی دقت پیش نہ آئے ۔۔۔ لیکن گھر کاروبار سب شاندار ہونے کے باوجود یاد رہے ۔۔۔ لڑکے کی عمر زیادہ نہ ہو ۔۔۔ یہ تمام سہولیات خداداد ہونی چاہئیں ۔
لڑکا سرکاری ملازمت کرتا ہو تو کیا ہی کہنے ۔ اگر سرکاری ملازم ہے اور آمدن سے زیادہ اثاثوں کا مالک ہے تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں لیکن لڑکا ایمانداری میں بھی مشہور ہوتا چاہئے ۔ لڑکی کی ماں بہن اور بھائیوں کو جینے کا پورا حق حاصل ہے بلکہ دنیا بنی ہی ان کے لیے ہے شاید ۔ لیکن لڑکے کے بہن بھائی اور ماں باپ تو بوجھ ہیں زمین پر ۔وہ نہ ہی ہوں تو اچھا ہے تاکہ بہو رانی اپنی نیند سوئے اور اپنی نیند جاگے۔ نہ نندوں کی چخ چخ ہو نہ ساس کی بک بک۔
کہیں دیر نہ ہوجائے
غرض دونوں طرف اضداد کی بھرمار ہے ۔ ہماری مادیت پرستی اور غیر فطری اجتماعی سوچ نے شادی کی فطری خواہش کو پورا کرنا اس قدر دشوار کر دیا ہے نوجوان نسل فرار کی راہوں کی مسافر ہونے لگی ہے ۔ ہمیں ادائوں پہ خود ہی غور کرنا ہوگا ۔۔۔ اس سے پہلے کہ یہ فرار کا رجحان بغاوت کی شکل اختیار کرے۔