ذرے ہی سہی کوہ سے ٹکرا تو گئے ہم
ذرے ہی سہی کوہ سے ٹکرا تو گئے ہم
دل لے کے سر عرصۂ غم آ تو گئے ہم
اب نام رہے یا نہ رہے عشق میں اپنا
روداد وفا دار پہ دہرا تو گئے ہم
کہتے تھے جو اب کوئی نہیں جاں سے گزرتا
لو جاں سے گزر کر انہیں جھٹلا تو گئے ہم
جاں اپنی گنوا کر کبھی گھر اپنا جلا کر
دل ان کا ہر اک طور سے بہلا تو گئے ہم
کچھ اور ہی عالم تھا پس چہرۂ یاراں
رہتا جو یونہی راز اسے پا تو گئے ہم
اب سوچ رہے ہیں کہ یہ ممکن ہی نہیں ہے
پھر ان سے نہ ملنے کی قسم کھا تو گئے ہم
اٹھیں کہ نہ اٹھیں یہ رضا ان کی ہے جالبؔ
لوگوں کو سر دار نظر آ تو گئے ہم