زردار کبھی چاہنے والا نہیں مانگا
زردار کبھی چاہنے والا نہیں مانگا
رائی کی ضرورت پہ ہمالہ نہیں مانگا
اکثر مرے چولھے میں رہا برف کا ڈیرا
لیکن کسی رشتے سے نوالا نہیں مانگا
بر وقت ضرورت نہ ہوئی پوری کسی سے
سورج سے اندھیرے میں اجالا نہیں مانگا
غالبؔ کے ہنر میرؔ کی فن کاری کے صدقے
ناقد سے کسی نے بھی حوالہ نہیں مانگا
پوری نہ ہو ایسی کوئی خواہش ہی نہیں کی
منظر کوئی آنکھوں نے نرالا نہیں مانگا
تپتے ہوئے صحرا کی ضیاؔ پیاس بجھائی
دریاؤں سے پانی کا پیالہ نہیں مانگا