ذرا سے غم کے لئے جان سے گزر جانا
ذرا سے غم کے لئے جان سے گزر جانا
محبتوں میں ضروری نہیں ہے مر جانا
کبھی لحاظ نہ رکھنا کسی روایت کا
جو جی میں آیا اسے ہم نے معتبر جانا
وہ ریت ریت فضا میں تری صدا کا سراب
وہ بے ارادہ مرا راہ میں ٹھہر جانا
تمام رات بھٹکنا ترے تعاقب میں
ترے خیال کی سب سیڑھیاں اتر جانا
وہ من میں چور لیے پھرنا تیرے سائے کا
گلی کے موڑ پہ دیوار و در سے ڈر جانا
شکیلؔ گاؤں کے سب لوگ سو گئے ہوں گے
اب اتنی رات کو اچھا نہیں ہے گھر جانا