ذرا مزہ نہیں آیا کلام کر کے مجھے
ذرا مزہ نہیں آیا کلام کر کے مجھے
کسی نے روک لیا تھا سلام کر کے مجھے
میں اس پہ خوش ہوں مرا دوست ہے مرا افسر
وہ مجھ سے چار گنا خوش غلام کر کے مجھے
سفر بھی اب کے گراں ہے بہت طبیعت پر
سکوں بھی پل کو نہیں ہے قیام کر کے مجھے
وہ مجھ سے پوچھ رہا تھا وفا کے بارے میں
کوئی صلہ بھی ملے گا یہ کام کر کے مجھے